حضرت امامِ علی نقی علیہ السّلام-: سلسلہ امامت کے دسویں تاجدار ،سلسلہ معصومیت ؑکے بارہویں لعل۔ اسمِ گرامی : علیؑ کنیت : ابوالحسن لقب : نقی ولادت ِ ظاہرا : مدینہ منورہ بمقام محلہ صریا ۵؍رجب المرجب ۲۱۴ ہجری شہادت ِ ظاہرا : سامرہ ۳؍رجب المرجب ۲۵۴ہجری (معتز باللہ ملعون عباسی خلیفہ نے زہر دے کر شہید کیا) والدہ ماجدہ : حضرت سمانہ خاتونؑ، عبادت وتقویٰ وطہارت میں افضلِ کائنات والد ِ بزرگوار: نویں امام حضرت ِ امام محمد تقی علیہ السّلام اولاد : چار فرزند،ایک دختر فرزند ِ اکبر: گیارہویں امام حضرت ِ امام حسن عسکری علیہ السّلام:- امامِ زمانہ حجت ِ دوراں، بارہویں لعلِ ولایت حضرت امام محمد مہدی انہی جناب کے فرزند ہیں۔ جو پردۂ غیبت میں موجود ہیں اور کائنات کانظم و نسق چلارہے ہیں بحکم ِ خدا ظہور فرمائیں گے۔ دوسرے فرزند: حضرت ابو جعفر محمد (حضرت اسد الد جیل علیہ السّلام) آپ کا مزار ِمقدس سامرہ اور کاظمین کے درمیان َبلدَ کے مقام پر واقع ہے آپ مثلِ حضرت عباس ؑ سقائے سکینہ ؑ اپنے غیظ و غضب میں مشہور ہیں آپ کے مزارِ مقدس پر کسی کی کوئی چیز گم نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی آپ کی جھوٹی قسم کھاسکتا ہے۔ امام حسن عسکری ؑ کی دشمنوں سے حفاظت کے پیشِ نظر امام علی نقی ؑنے اِنھیں عوام کی نظروں کے سامنے رکھا تاکہ لوگ انھیں امام سمجھتے رہیں، آپ کی وفات کے بعد امامِ علی نقیؑ نے امام حسن عسکری ؑ کی امامت کو لوگوں پر ظاہر کیا تمام شیعہ آپ ہی کو امام سمجھتے تھے آپ کی وفات کے بعد بھی کچھ لوگ آپ کو امام غائب مانتے رہے وہ لوگ فرقہ ِ محمدیہ کے نام سے مشہور ہوئے ، یہ فرقہ بہت عرصہ چلا۔ حضرت اسد الدجیل صاحب ِ تقوی اور عابد وزاہد ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت جری بہادر اور دلیر تھے بڑے بڑے سورما ان کے نام سے لرز جاتے تھے۔ کردار و خصائل میں جناب عباس علیہ السّلام کی شبیہ تھے۔ تیسرے فرزند: حضرت حسین بن علی النقی علیہ السّلام -: اپنے زمانے کے برگزیدہ عالم و زاہداہل ِتقوی ِسوا امامت تمام اوصاف ِحمیدہ کے مالک، آپ کی اولاد اصفہان میں آباد ہوئی۔ وہاں سے ہجرت کرکے ہندوستان میں سکونت اختیار کی۔ سادات ِ نقوی اصفہانی منڈوا سادات کے نام سے مشہور ہیں جو ضلع فتح پور ہنسوا میں آباد ہوئے، علاّمہ ڈاکٹر سیّد ضمیراختر نقوی کی والدہ ِ ماجدہ سیّد ہ محسنہ بیگم کا تعلق اِسی خاندان سے ہے۔ چوتھے فرزند: حضرت جعفر الذکی بن علی النقی علیہ السّلام-: تمام بنی ہاشم ؑپیار سے حضرت جعفرؑ اور حضرت محمدؑ کو حسنینؑ کہا کرتے تھے چونکہ حضرت جعفر الذکی کا نام حسن تھا۔ جس طرح حضرت امام حسن ابنِ علی ابن ِابی طالب ؑ اور حضرت امام حسینؑ ابنِ علی ؑ ابنِ ابی طالب ؑ اِسی طرح یہ حسن ابنِ علی النقیؑ اور حسین ؑ ابنِ علی النقیؑ۔ حضرت ِ جعفر الذکیؑ نے شہادت ِ امام حسن عسکری ؑ کے بعد حفاظت ِ امام زمانہ حضرت امام محمدمہدیؑ کی تمام تر ذمہ داری اپنے اوپر ڈال لی لوگ اُنھیں کذّاب اور َتواّب جیسے القابات سے پکارتے ہیں جو قطعاً حرام ہے۔ اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ پر یہ راز منکشف ہوگا کہ امام زین العابدین ؑ کے چچا حضرت ِ محمد حنیفہ ؑ نے واقعۂ کربلا کے بعد انتقامِ خونِ حسین ؑ کا منصوبہ بنایا اور جناب ِ امیرِ مختارؑ کی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کی لوگوں کو جناب ِ امیرِ مختارؑ کا ساتھ دینے کی ترغیب دی تاکہ دشمن حضرت ِ محمد حنفیہ ؑ کو امام سمجھتے رہیں اور اُن کی توجہ امام زین العابدین ؑ سے ہٹ جائے ہم شیعوں کے عقیدے کے مطابق امام ہی جہاد کا حکم دے سکتا ہے اس لیئے لوگ اِنھیں امام سمجھنے لگے اور جناب ِ امیرِ مختارؑ کے ساتھ مل کر حضرت محمد حنفیہؑنے سلسلہ ِ انتقام جاری رکھا ایک مرتبہ یہ دشمنوں کے نرغے میں ِگھر گئے۔ گھر کے چاروں طرف لکڑیاں ڈھیر کردی گئیں دشمن آگ لگاکر حضرت ِ محمد حنفیہؑ کو شہید کرنا چاہتے تھے کہ عین وقت پر جناب ِ ا میرِ مختار ؑکے ساتھیوں نے بچالیا۔جناب امیرِ مختار ؑنے ان کی حفاظت کے پیشِ نظر خود امامت کا دعویٰ کردیا کہ میں کسی امام کو نہیں مانتا بلکہ میں تو خود امام ہوں اور خون ِ حسین ؑ کا بدلہ لے رہاہوں۔ اب دشمنوں کا ذہن امام زین العابدینؑ اور حضرت ِ محمد حنفیہ ؑسے ہٹ کر امیرِ مختارؑ کی طرف چلاگیا۔ بہرحال جب تک انتقام پورا نہیں ہوا دعوائے امامت کیے رکھا۔ اُس کے بعد خود امام زین العابدینؑ کو حجر ِاسودکے پاس لاکر حجرِ اسود سے امام زین العابدین ؑ کی امامت کی گواہی ہزاروں افراد کے سامنے دلوائی تاکہ سب پر واضح ہوجائے کہ اصل امام کون ہے۔اِسی طرح ہر امام کے دور میں کئی کئی امام زادوں نے دعوائے امامت کیا حالانکہ جانتے تھے کہ دعوائے امامت کا مطلب اپنی گردن تلواروں کے نیچے رکھنا ہے انجام موت کے سوا کچھ نہیں لیکن دعویٰ کیا تاکہ اُن کی جانیں ختم ہوجائیں اور امامِ وقت بچ جائے۔بالکل اِسی طرح حضرت ِ جعفر الذکیؑ نے بھی دعوائے امامت کیا اور امامِ حسنؑ عسکری ؑکو لاولد کہا دربار خلافت ِعباسیہ میں اپنے آپ کو امام کا وارث ظاہر کیا امام کی ملکیت کو اپنی ملکیت قرار دیاشیعوں کے سامنے اپنے آپ کو غیر شرعی لبادے میں ظاہر کیا ۔ دجلہ کے کنارے رقص وسرور کی محفلیں سجانا،ناچ گانا سننااور لوگوں کو ان محفلوں میں موعوکرنا اپنا شعار بنالیا تاکہ شیعہ یہ سمجھ جائیں کہ امام کوئی اور ہے کیونکہ امام َمعصوم ؑہوتا ہے اُس کا ظاہرا بھی باطن کی طرح پاک ہوتا ہے۔ اس لیئے امامِ حقیقی ایسا کام تو درکنار اس میں شرکت بھی نہیں کرتا۔ ایک روز عباسی خلیفہ معتمد معلون کے پاس گئے اور کہنے لگے تمہیں ایک لاکھ درہم دوں گا تم شیعوں سے کہو کہ مجھے اپنا امام بنالیں۔ معتمد معلون نے جواب دیاجعفرؑ تم جیسا ناسمجھ آدمی میںنے کبھی نہیں دیکھا جو مجھ سے اپنی امامت کی سند لینا چاہتا ہے تم خود سوچو کیا شیعہ میرے کہنے سے تمہیں اپنا امام تسلیم کرلیں گے۔ جعفرؑ تم اپنے آپ کو درست کرلو اور لالچ چھوڑدو۔ جولوگ ُخمس لاتے اور اِن کو امام سمجھ کر ان کے حوالے کرنا چاہتے تو اُن سے پوچھتے کہ ہمارے بھائی تم سے مالِ ُخمس کس طرح وصول کیا کرتے تھے تو آنے والے بتاتے کہ وہ ہمیںپہلے ہی تفصیل بتادیا کرتے تھے کہ کس کس نے کیا کیا چیز کتنی کتنی مقدار میں بھیجی ہے یہ جواب سن کر حضرت ِجعفر الذکیؑ غصّے میں بھرجاتے اور شور مچامچا کر کہتے تم مجھے عالم الغیب سمجھتے ہو یہ باتیں تو خدا جانتا ہے میرے بھائی پر عَا لم اُلغیب ہونے کا الزام لگاتے ہو یہ سن کروہ لوگ واپس چلے جاتے راہ میں کہیں نہ کہیں امامِ زمانہ ؑسے ملاقات ہوجاتی اور مال صحیح جگہ پہنچ جاتا مومنین کی حفاظت بھی ہوجاتی یہ سب کام ایک منصوبہ کے تحت کرتے رہے اپنی جان کو ہتھلی پر رکھا، اپنوں کے َسب وشتم بھی برداشت کیے مگر حفاظت ِ امام سے ُمنہ نہ موڑا، حضرت جعفر الذکیؑ کے ایک فرزند جوامامِ زمانہ ؑ کے خواص میں شامل تھے اُن کا نام کُتب میں حضرت ابوالرضا عیسیٰ بن جعفر ؑ تحریر ہے اپنے زمانے کے عَالم ، زاہد اور تقویٰ کی منزل ِاعلیٰ پر فائض تھے۔ مدینہ منورہ میں درسِ حدیث پر امام ِ زمانہ ؑ کی ہدایت پر ما ُمور تھے اُنھوں نے اپنے بزرگوں کی طرح عباسیوں کی توجہ امامِ زمانہ ؑ سے ہٹانے کے لیئے ۳۰۰ ہجری میں شام جاکر خروج کیا اور جامِ شہادت نوش فرمایا ان کا سرِ مبارک بغداد لایا گیا اور کئی روز بغداد کے داخلی دروازے پر لٹکارہا، اُس وقت مقتدر باللہ عباسی معلون خلیفہ ٔ وقت تھا۔ بقول علاّمہ ڈاکٹر سیّد ضمیراختر نقوی ۔ ’’جناب ِ جعفر الذکی ؑنے کبھی دعوائے امامت کیا ہی نہیں، یہ سب ُمورّخ کی سیاسی چال بازی ہے حقیقت یہ ہے کہ آپؑ نے بنی عباس کے ظالم و جابر حکمرانوں سے امامت کو محفوظ رکھنے کے لیئے تقیہ اختیار کیا تھا، جس طرح حضرت ِ رسول اکرم ؐکے قتل کا سارا منصوبہ صرف حضرت ِ ابوطالب علیہ السّلام کے اظہار ِ ایمان نہ کرنے سے خاک میں مل گیا ۔ بس جس طرح رسول اکرمؐ کے چچا حضرت ابوطالب ؑ نے اپنے بھتیجے کی زندگی اپنے تقیہ میں مضمر فرمائی بالکل اِسی طرح حضرت امام مہدی ؑ کے چچا حضرت ِ جعفر الذکی ؑ نے اپنے بھتیجے کی زندگی اپنے تقیہ میں مضمر پائی اور آخری امام ؑکی حفاظت میں کامیاب ہوئے مسلمانوں کی تاریخ کی تاریکی ہے ان حضرات کی عظیم شخصیات پر ان الزامات کی سیاہی نہیں چھاسکتی۔جولوگ ان پر کذّاب و َتواّب کا فتویٰ لگاتے ہیں وہ خود کذّاب و َتواّب ہیں۔ پہلے امام کے برگزیدہ فرزند پر جھوٹا الزام لگا کر خود کذّاب بنتے ہیں جب حقیقت سامنے آتی ہے تو تو بہ کرکے َتواّب بن جاتے ہیں۔ آپؑ کی قبرِ مبارک سامرہ میں اپنے پدرِ بزگوار امام علی نقی علیہ السّلام کے روضے میں ہے۔آپ کے تمام فرزند امامِ زمانہؑ کے خواص میں شامل تھے۔ پاک و ہند میں %۹۵فیصد نقوی سادات آپ کی نسل سے آباد ہیں آپ کی اولاد میں لاتعداد اُولیا، عارفین اورصالحین آئے جن کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے جس کا ثبوت علاّمہ سیّد ضمیراختر نقوی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے‘‘۔ خاندانی پسِ منظر-: علاؑمہ سیّد ضمیراختر نقوی ۲۴؍مارچ ۱۹۴۷ء؁ کو لکھنؤ کے علمی و ادبی گھرانے محلہ وزیر گنج میں پیدا ہوئے علم وادب کی نامور شخصیات نے اس دھرتی پر جنم لیا، اُن شخصیات کے نام اور حالات علاّمہ صاحب کی تصانیف شعرائے اُردو اور عشقِ علی ؑ ،ہر صدی کا شاعرِ اعظم میرانیسؔ، میں آپ کو مل جائیں گے۔ والدین کی طرف سے نجیب الطرفین نقوی سادات سلسلۂ َنسب دسویں امام حضرت علی نقی علیہ السّلام سے جاملتا ہے ۔والدہ کا تعلق نقوی اصفہانی سادات ِ منڈوا کے عالم و فاضل گھرانے سے ہے والدہ ِ گرامی اپنے زمانے کی ذاکرہ، مُبلغہ، عالمہ، فاضلہ، جنھیں عربی،فارسی،اُردو اور انگریزی زبانوں پر عبور تھا اور بغیر دیکھے خطابت فرمایا کرتی تھیں اس لیئے لکھنؤ کی پہلی ذاکرہ قرار پائیں دس برس کی عمر سے مجالس سے خطابت کا آغاز کیا جو اُن کی وفات تک جاری رہا۔بڑے عقیدت واحترام سے گھر کا عزا خانہ سجاتیں اور سوا دو مہینے عزاداری کا سلسلہ جاری رہتا۔ ۸؍ربیع الاوّل ۱۳۹۶؁ہجری یعنی ۲؍اپریل ۱۹۷۴ء؁ منگل کے روز گھر پر شہادت ِ امام حسن عسکری ؑ کی مجلس تھی فرشِ عزا پر بیٹھی ذکرِ امام سن رہی تھیں کہ روح قفسِ عنصری سے پرواز کرکے ملکہ عالمین جناب سیّدہ ؐ کے حضور جا پہنچی ۔علاّمہ صاحب کو خطابت کا ورثہ والدہ کی جانب سے ہی ملا ہے۔ والد ِ گرامی کا تعلق بھی نقوی سادات کے علمی و ادبی گھرانے سے ہے۔ دادا سیّد دیانت حسین نقوی لکھنو ٔکے ایسے روسامیں شمار تھے جو ادب پرور گردانے جاتے ہیں اُن کے حلقہ ٔ احباب میں اُس وقت کے بڑے بڑے شعراء ،ادیب، خطیب، عالم اور نوابین لکھنو ٔ شامل تھے۔ یہ تمام لوگ سیّد دیانت حسین نقوی کا نہایت ہی ادب واحترام کیا کرتے تھے۔ علاّمہ صاحب کے والد سیّد ظہیر حسن نقوی ۱۳؍فروری ۱۹۱۰؁ء میں بروز اتوار مصطفیٰ آباد لکھنؤ میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم مصطفیٰ آباد اور دسویں تک حسین آباد اسکول لکھنؤ میں حاصل کی۔۱۹۳۰ء؁ میں میڈیکل اینڈ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ لکھنؤ میں سرکاری ملازم ہوئے۔ ۳۵ برس تک لکھنو ٔ میں قیام رہا سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد ۱۹۷۰ء؁ میں کراچی پاکستان آگئے اور کراچی ہی میں ۱۹۹۹ء؁ میں انتقال فرمایا ۔ انتہائی شریف النفس ،عبادت گزار ،عزادار، بااصول اور باکردار شخصیت کے حامل تھے تمام خاندان اُن کا گرویدہ تھا، وہ بھی سب کے دکھ درد اور خوشی میں شریک رہتے تھے سیّد ظہیر حسن نقوی کے تین فرزند اور تین دختر ماشاء اللہ سب اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں۔ بڑے فرزند سیّد محسن اخترنقوی نیوجرسی امریکہ میں سکونت پذیر ہیں، دوسرے فرزند علاّمہ سیّد ضمیراختر نقوی کراچی پاکستان میں سکونت پذیر ہیں جن کی حیات کے مختلف گرشوں پر یہ کتاب لکھنے کی کوشش کررہاہوں، تیسرے فرزند سیّد تنویر اختر نقوی انگلینڈ میں سکونت پذیر ہیں بڑی دختر ِ ِنیک اختر سیّدہ کنیز مہدی عرف شہناز سیّد جلال اصغر جعفری کی شریک ِ حیات ہیں گلشنِ اقبال کراچی میں سکونت پذیر ہیں، دوسری دختر ِ نیک اخترسیّدہ معراج فاطمہ عرف پروین سیّد علی اختر زیدی کی شریک ِ حیات ہیں لندن میںسکونت پذیر ہیں، تیسری دخترِ نیک اختر سیّدہ نسرین فاطمہ سیّد ناصر رضا رضوی کی شریک ِ حیات ہیں گلشن ِ اقبال کراچی میں سکونت پذیر ہیں۔مولا امام ِ زمانہ بحق شہدائے کربلا ان سب کو معہ اولادواہلِ خانہ اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔(آمین) علاّمہ صاحب نے دسویں جماعت تک حسین آباد اسکول لکھنو ٔ سے بارہویں جماعت تک انٹر دہلی کالج سے تعلیم حاصل کی جبکہ گریجوشین کی سند شیعہ ڈگری کالج سے حاصل کی۔اُس کے بعد جامعہ ازہر مصر سے پی ایچ ڈی (Ph.D) پاس کیا۔ علاّمہ صاحب کے بچپن کے دو محبوب مشغلے تھے ایک مضمون نویسی دوسرے شعر و ادب کا مطالعہ گھر یلو ماحول نے ان کے ذوقِ ادب کو توانائی بخشی اور دسویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے میدانِ خطابت کے شہوار بن گئے، وزیر گنج چونکہ ادیبوں اور شاعروں کا محلہ تھا اُردو کے مشہورافسانہ نگار علی عباس حسینی ،معروف تنقید نگار پروفیسر احتشام حسین نامور مصنف مرزا واجد حسین ایڈوکیٹ اور اخترتلہری جیسے اکابرین ِادب علاّمہ صاحب کے پڑوسی تھے علی عباس حسینی کے بھتیجے علاّمہ صاحب کے ہم جماعت تھے اس لیئے علاّمہ صاحب ہر اتوار کو علی عباس حسینی کے گھر شعراء کو ُسننے کے لیئے جاتے جہاں اطراف کے شعراء اور خطباء اپنے اپنے کلام کے جوہر دکھاتے، خوب محفلیں ہوتیں۔ علاّمہ صاحب کے گھر ُکتب کا انبار تھا وہ سب علاّمہ صاحب کو ازبر ہوچکاتھا، علاّمہ صاحب کو ُکتب کی تلاش تھی ،علی عباس حسینی کا قیمتی ُکتب خانہ علاّمہ صاحب کی مطالعہ گاہ بن گیا، تاریخِ ادب ،تنقید اور تحقیق کی کتابوں کے علاوہ مرزا ہادی رسوا،ڈپٹی نذیر احمد اور منشی پریم چند کے ادبی ناول ،رومانی دنیا اور جاسوسی دنیا کے ناول، کرشن چندر، رام لعل، رئیس احمد جعفری، دت بھارتی، گلشن ننداجیسے مشہور و معروف افسانہ نگاروں کے افسانے، مقبول عام رسالے شمع اور بیسوی صدی بھی علاّمہ صاحب کے زیرِ مطالعہ رہے کوئی کتاب کوئی ناول کوئی افسانہ علاّمہ صاحب سے پوشیدہ نہ رہ سکا، وہ تمام کا تمام اب تک ذہن میں محفوظ ہے۔تمام افسانہ نگاروں کو بچپن میں بہت قریب سے دیکھا، آپ کے والد کے دوستوں میں رضیہ سجاد، سجاد ظہیر،رام لعل ،عادل رشید، مسعود حسن ادیب، آلِ محمد سرور،سیّد ظفر یاب حیدر زیدی رجسٹرار علی گڑھ یونیورسٹی،پروفیسر سیّدحسن یاور نقوی، جسٹس علی نصرت نقوی، سیّد خورشید احمد،ایڈٹر ماہنامہ نیادرلکھنؤ مولانا سلیمان عباس (بنارس) مولانا حیدر حسین نکہت لکھنوی،پروفیسر مولانا یاور مہدی، ضیا اللہ راجہ لکھیم پوراور پدم شری علی جواد زیدی جیسی قابلِ قدر شخصیات تھیں اُن سے متعارف ہوئے تو ذوقِ ادب اور بڑھا، یہ دور ڈاکٹر شارب ردولوی نورالحسن ہاشمی، سلام سند یلوی، آنندنرائن ملا، حیات اللہ انصاری وغیرہ کی جوانی کا تھا ان لوگوں کو بھی قریب سے دیکھا اور سنا، علاّمہ صاحب لکھنؤ کے مجلسی ِ ادب کے شعراء اصفی لکھنوی، مہذب لکھنوی، جعفر علی خاں، خیبر لکھنوی، اثرلکھنوی، ماہر لکھنوی، منظر لکھنوی،سالک لکھنوی، نہال لکھنوی، اور شہید لکھنوی سے زیادہ متاثر ہوئے اور ان کے کلام سُنے، جوش ملیح آبادی اور نیاز فتح پوری بھی اُس وقت لکھنؤ میں تھے۔یہ دونوں حضرات بھی علاّمہ صاحب کے والد کے دوستوں میں تھے مولانا کلب ِ حسین عرف کبن صاحب، مولانا سعید الملت ،مولانا نصیرالملت،مولانامحسن الملت،مولانا ابنِ حسن نونہروی کی بزم سے استفادہ حاصل کیا اور خطابت سیکھی۔ ان افسانہ نگاروں ،ادیبوں ،شاعروں تنقید نگاروں، خطیبوں اور عالموں سے کسبِ فیض حاصل کرکے بیس ۲۰ برس کی عمر میں لکھنو ٔ سے کراچی تشریف لائے اورمستقل سکونت اختیار کی۔ لکھنؤ میں ماہنامہ سرفراز،ماہنامہ العلم،ماہنامہ نظارہ ہر مہینے پابندی سے گھرآتاتھا، لیکن علاّمہ صاحب کا رُجحاں لکھنو ی ماحول کی وجہ سے بلکہ یہ کہا جائے کہ قدرتی اور معجزاتی طور پر مرثیے اور خطابت کی طرف رہا، میرانیسؔ اور مرزاؔ دبیر بچپن ہی سے علاّمہ صاحب کا آئیڈیل رہے۔ علاّمہ صاحب کے ا َجداد واسلاف یعنی سادات ِ نقویہ ُبزرگان ِکشف وکرامات کے حالا ت آپ کوُ مفصل طورپر ُکتب میں ملیں گے ،کچھ صاحبانِ کشف و کرامات ومعرفت کا تذکرہ ثواباً تحریر کرنے کی سَعی کررہاہوں۔ سیّد شمس الدین گردیزی:- سیّد شہاب الدین گردیزی اور سیّدد شمس الدین گردیزی حضرت ِ امام علی نقی ؑ کی نویں پشت میں تھے۔ شاہِ گردیز محمد یوسف آپ کے سگے ماموں تھے۔ اپنے والد سیّد زین الدین حسن گردیزی کی شہادت کے بعد اپنے ماموں کے پاس رہنے لگے۔ شاہِ گردیز کی زیرِنگرانی دونوں نے تعلیم حاصل کی ،بعد میں دونوں بھائی ملتان سے دہلی آگئے، بادشاہِ دہلی سلطان التمش نے سیّد شمس الدین گردیزی کی شرافت و نجابت ِ خاندانی دیکھ کر اپنی بیٹی کا عقد اِن سے کردیا،جب یہ بیگم لاولد وفات پاگئیں تو اُن کا دوسرا عقد راضیہ بیگم دخترسلطان رکن الدین فیروز ابنِ سلطان التمش سے ہوا،سیّد شمس الدین گردیزی کی بود باش تاحیات دہلی میں رہی اور بعد ِ وفات مَہر ولی قریب ِحوضی شمسی مدفون ہوئے، آپ کی اولاد مضافات ِ دہلی میں سادات ِ گردیزی کے نام سے خوب پھولی پھلی دہلی، گوڑ گانواں ، پنگھوڑ، مورانہ، سلطان پور ،رسول پور، رسول داران، بھونکر، ریواڑی اور مشرقی پنجاب کے قصبات میں جتنے نقوی سادات ہیں اکثریت سیّد شمس الدین گردیزی کی نسل سے ہیں۔ سیّد شہاب الدین گردیزی:- سیّد شہباب الدین گردیزی ،سیّدشمس الدین گردیزی کے بڑے بھائی تھے، نہایت بہادر اور شجاع سردار تھے، علم و ادب میں کمال حاصل تھا، سلطان التمش نے کڑا اور مانک پور کی ُکل جاگیر کا فرمان سیّد شہاب الدین کو عطا کیا، اِنھوں نے چار ہزار بہادر سپاہوں کے ساتھ راجہ مانک پور اور اُس کی فوج کا بڑی جوانمردی سے مقابلہ کیا اور قلعہ فتح کرلیا۔راجہ مانک چند بھاگ کر بنارس چلا گیا۔ مانک پور پر آپ کی حکومت قائم ہوگئی، آپ نے اپنی سکونت یہیں اختیار کر لی، آپ کے بیٹے سیّد جلال الدین گردیزی بھی آپ کے ہمراہ تھے ۱۲۳۱عیسوی میں سیّد شہاب الدین گردیزی کی وفات ہوئی اور وہیں مدفون ہوئے۔ سُرخ پتھر کا عظیم الشان مقبرہ آج تک ان کی قبر پر قائم ہے۔ آپ کی نسل میں بڑے بڑے نامور اور صاحبانِ علم و ادب نظر آتے ہیں۔ مثلاً قاضی سیّد شرف الدین گردیزی ،سلطان محمد تغلق کے دور میں قاضی کے منصب پر فائز رہے راجے سیّد عبدالقادر گردیزی،شاہجاں بادشاہ کے دور میں میر عدل کے منصب پر فائز رہے سیّد محمد رحیم گردیزی، یہ بھی شاہجاں بادشاہ کے دور میں میر عدل کے منصب پر فائز رہے سیّد محمد دیوان راجے گردیزی، یہ فُرخ سیر بادشاہ کے دور میں صوبہ ِبہار کے دیوان مقرر ہوئے سیف الدولہ نواب عبدالصمدخان گردیزی دلیر جنگ بہادر، یہ محمد شاہ بادشاہ مُغل کے دور میں صوبہ لاہور و کشمیر کے صوبے دار کے منصب پر فائز رہے، خان بہادر سیّد عبدالغفار گردیزی یہ بھی محمدشاہ بادشاہ کے عہد میں صوبہ الہٰ آبا د کے سپہ سالار کے منصب پر فائز رہے۔شاہ ولایت راجے سیّد حامد شاہ گردیزی (شاہِ ولایت در عہد شاہانِ شرقیہ جو نپور) شاہ ولایت سیّد نور(مانک پور) ان سب بزرگانِ سادات کی اولاد اب تک مانک پور، کڑا، رسول پور، مصطفیٰ آباد ضلع رائے بریلی (اُنچاہار) سلون، بازید پور اور اُونچاگاؤں میں آباد ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاء:- سلطان المشائع حضرت نظام الدین اولیا ء بھی دسویں امام حضرت ِامام علی نقی ؑکی نسل میں ہے،پاک و ہند کا ہر شخص بلا امتیاز مذہب و ملت ان کے نام سے واقف ہے بابا فرید الدین گنجؒ شکر نے آپ کو ہندوستان کی ولایت سپرد فرمائی تھی۔بادشاہانِ وقت آپ کو بلا ناغہ سلامی پیش کیا کرتے تھے۔ آپ کا مزار دہلی میں مرجع خلائق اور زیارت گاہِ خاص و عام ہے حضرت نظام الدین اولیاء پکے اور سچے محب ِ اہلِ بیتؑ تھے۔ ان کی محفل میں ذکرِ علی ؑ اور شہادت ِ امام حسین ؑ کثرت سے ہوتا تھا جس کو آپ خود بیان کیا کرتے تھے۔ حضرت سیّد جلال الدین حیدر سُرخ بخاری:- سیّد سُرخ بخاری دسویں امام حضرت امامِ علی نقیؑ کی اولاد میں سے تھے یہ تبلیغ ِاسلام کے لیئے بخارا سے ہندوستان تشریف لائے تھے ۔ان کے اثر سے ہزاروں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے آپ کا مزار ِمبارک اُوچ شریف میں مرجع خلائق ہے زائرین دور دور سے آپ کے مزار کی زیارت کے لیئے آتے ہیں۔ پاکستان میں تمام اولیاء اللہ کے مزارات محکمہ اوقاف کی زیرِنگرانی ہیں۔ غیروں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس لیئے زیادہ تر شیعہ والیان ِ مزار کو غیر شیعہ اور دشمنِ اہلِ بیت ؑ سمجھتے ہیں کچھ نام نہاد مزارات بھی پاکستان میں ہیں جن کو صرف اس مقصد کے لیئے دشمنانِ اہلِ بیت ؑ فوقیت دیتے ہیں کہ محبانِ اہلِ بیت ؑ کا مرتبہ کم ہو جائے اس لیئے اپنے بنائے ہوئے پیروں اور ولیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ سیّد سُرخ بخاری جلیل القدر صاحب ِ معرفت بزرگ تھے۔ اِن کی کرامات کے وَاقعات زبانِ زدِ خاص و عام ہیں۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ:- قطب صاحب کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ بھی دسویں امام حضرت ِ علی نقیؑ کی اولاد میں سے ہیں۔خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری ؒ کے سب سے بڑے خلیفہ اور سجادہ نشین تھے۔ یہ بھی اپنے زمانے کے بڑے صاحب ِ کرامت بزرگ تھے۔ اِن کا مزار ِمبارک بھی مرجع خلائق ہے۔ جو مَہرولی میں واقع ہے۔ مخدوم حضرت جہانیاں جہاں گشتؒ:- سیّد جلال الدین حیدر بخاری کے پوتے ہیں آپ کی تعلیمات سے کئی ممالک کے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ حافظ ِ قرآن، ماہرِ علم الکلام اور بے حد روشن دماغ تھے۔ شریں کلامی،اخلاقِ کریمانہ اور اوصافِ حمیدہ کے مالک تھے۔ خطاطی اور خوشنویسی میں مَلکَہ تھا۔ آپ نے اتنے سفر کیے کہ آپ کا لقب جہاں گشت ہوگیا مُلکوں مُلکوں کی سیر اور اشاعت ِ دین آپ کا محبوب ترین کام تھا، جہاں بھی گئے ولایت ِ محمدؐ و آلِ محمدؐ کی محبت کے چراغ روشن کیے آپ کا مزار ِ مبارک بھی اوچ شریف بہاولپور میں واقع ہے۔ آپ بھی صاحب ِ کرامت اور جلیل القدر بزرگ تھے۔ ان کی اولاد سے برصغیر پاک و ہند کا کوئی گوشہ خالی نہیں ۔میسور،مدراس، دکن، احمد آباد، گجرات ،بنگال ،آسام، ِبہار،یوپی،دہلی، کشمیر پاکستان میں سندھ،پنجاب،سرحد، بلوچستان ہر مقام پر آپ کی اولاد نے اپنے علم و فضل کا سکہ ِبٹھایا ہوا ہے۔ ُکتب خانہ:- علاّمہ صاحب نے اپنی رہائش گاہ میں ایک ُکتب خانہ بھی بنایا ہے بلکہ یوں کہوں تو بہتر ہوگا کہ ُکتب خانے میں رہائش گاہ بھی بنائی ہوئی ہے۔پاک و ہند کا یہ عظیم ُکتب خانہ علاّمہ صاحب نے اپنی انتھک محنت اور لگن سے پچاس سال کے ایک طویل عرصے میں ترتیب دیا ہے۔علاّمہ صاحب کو ورثے کی صورت میں ُکتب کا انمول خزانہ اپنے بزرگوں سے ملا لیکن ُکتب کے ذخیرے کو بڑھانے میں علاّمہ صاحب کو امریکہ، برطانیہ، فرانس،اٹلانٹا، یونان، جرمن،ایران، عراق، شام ،عرب امارات اور ہندوستا ن کا سفر اختیار کرنا پڑا۔آج اِس کتب خانے میں مسلمانوں کے پانچوں فقہ کے علاوہ دنیا کے تمام مذاہب کی ُکتب موجود ہیں۔ یہ ُکتب خانہ دنیا کے نایاب ترین ُکتب خانوں میں سے ہے،اِس ُکتب خانے کی کچھ خصوصیات ہیں پہلی بات جو اِس ُکتب خانے کی اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی موضوع پراگر کتاب کی تلاش ہے تو وہ اِس ُکتب خانے میں مل جاتی ہے۔ قرآن،تفسیرِ قرآن، حدیث، تاریخِ حدیث، علمِ حدیث اور حدیثوں کی مستند کتابیں، شیعہ اور اہلِ ّ سنت کی حدیثوں کی مشہور کتابیں اور اُن کی شرح اِس ُکتب خانے میں موجود ہے۔ دنیا کے مشہور قرآن ،دنیا کی مشہور تفسیریں جو مختلف ممالک میں لکھی گئی ہیں وہ سب اِس ُکتب خانے میں موجود ہیں۔تاریخ چاہے اسلام کی ہو یا پوری دنیا کی یا دنیا کے تمام ملکوں کی الگ الگ،اسی طرح برِصغیر پاک و ہند کی تاریخ اس ُکتب خانے میں موجود ہے۔سیرت پر، نہج البلاغہ پر، انبیاء کرام کی تاریخ، آئمہ معصومین ؑ کی تاریخ، اصحاب ِ رسولؐ، اصحاب ِ امیرالمومنین ؑسے لے کر اصحاب ِ امامِ مہدی ؑ تک جو کتابیں دریافت ہو چکیں وہ اس ُکتب خانے میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اس ُکتب خانے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس ُکتب خانے میں مذہبی کتابوں کے علاوہ بے انتہا کتابیں ادب پر بھی موجود ہیں۔جس میں یونان کا ادب، مصر کا ادب، عرب کا ادب، ایران کا ادب اور ہندوستان کا ادب اس کے علاوہ اُردو ادب پر جتنی بھی مشہور کتابیں ہیں وہ سب اس میں موجود ہیں۔تیسری خصوصیت اس ُکتب خانے کی یہ ہے کہ اس ُکتب خانے کو موضوعات کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔ جس موضوع کی تلاش ہو وہ تمام کتابیں ایک جگہ ملیں گی۔ مثلا ہمیں نہج البلاغہ پر کتابیں چاہئیں اور تمام نہج البلاغہ چاہیے تو وہ تمام ایک جگہ پر مل جائیں گی،تمام کتابیں اسکالر کو ایک جگہ پر نظر آئیں گی۔ اِسی طرح سیرت ِ رسولِ ؐ خدا کی حیات اور کارناموں پر کتابیں ایک جگہ مل جائیں گی۔ اسکالر کو ایک ہی جگہ اتنا کچھ مل جائے گا کہ اُسے کسی جگہ جانا نہیں پڑے گا ۔اِسی طرح واقعہ کربلا پر جتنے بھی مقاتل لکھے گئے ہیں جو واقعہ کربلا کو واضح کرتے ہیں موضوع کے اعتبار سے وہ تمام کتابیں مل جاتی ہیں۔چوتھی خصوصیت اِس ُکتب خانے کی یہ ہے کہ ایک ہزار سال پرانے قلمی نسخے جو کہ ہر صدی کے اعتبار سے ترتیب دیئے گئے ہیں اِن کی فہرست بھی کتابی شکل میں موجود ہے یہ وہ نایاب نسخے ہیں جو عباسی دور سے لے کر مغل عہد تک کے انتہائی قیمتی نسخے ہیںجبکہ بہت سے قلمی نسخے کا نگریس لائبریری واشنگٹن کو بھی دیے جاچکے ہیںاس کے باوجود کئی سو قلمی نسخے تاریخ پر ، ادب پر، حکمت پر ، علم ِلسانیت پر، علمِ تحریر پر، فلسفے پر، منطق پر، حدیث پر، اِس ُکتب خانے میں موجود ہیں۔ اس ُکتب خانے کی ایک اور قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ مرثیہ جو کہ دنیا کا عظیم موضوع ہے مرثیہ عربی ،فارسی، ترکی، گجراتی،سندھی اور سرائیکی میں بھی لکھا گیا اور دوسری زبانوں میں بھی تو دنیا کی ہر زبان میں کہے گئے مرثیے اس ُکتب خانے میں موجود ہیں اُردو کے تقربیاً تیس ہزار مرثیے قلمی شکل میں اس ُکتب خانے میں موجود ہیں ان مرثیوں کے خالق مرثیہ نگاروں کی تعداد تقریباً دس ہزار ہے۔یہ دس ہزار مرثیہ نگار جن کے کارناموں اور حیات پر علاّمہ صاحب چودہ جلدوں میں کتاب لکھ چکے ہیں ۔ اگر آپ مرثیوں کے حصّے پر نظر ڈالیں تو عربی، فارسی، ہندوستانی اور پاکستانی مرثیوں کی تاریخ کے ساتھ ساتھ میرانیسؔ ،مرزا دبیرؔ پر جو بے شمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں دنیا میں وہ سب یہاں موجود ہیں۔ یہ کتابیں سنین کے اعتبار سے رکھی گئی ہیں کہ کس سن میں کتنی کتابیں میرانیسؔ اور مرزا دبیرؔ پر لکھی گئی ہیں۔انگریزی ،اُردو ہندی زبان میں بھی میرانیسؔ پر کتابیں اور میرانیسؔ کے مرثیوں کے ترجمے بھی اس ُکتب خانے میں موجود ہیں۔ تنقیدی ،تحقیقی اور میرانیسؔ اور مرزا دبیرؔ کی سوانحِ حیات سے متعلق سولہ جلدیں مرثیوں کا انتخاب جو آج سے َّستربرس پہلے لاہور کے ایک ادارے نے کیاتھا جس کے ممبر علاّمہ اقبال ؔبھی تھے۔نجیب اکبر آبادی نے یہ کا م بہت محنت سے کیاتھا تو یہ ُ کتب بھی اِس ُکتب خانے میں موجود ہیں، اُردو شعرا ء میں ایک ہزار سالہ اُردو کی تاریخ کے علاوہ اُردو کے پہلے شاعر قلی ُکتب شاہ سے لے کر جوش ملیح آبادی ؔتک اُن کے بعد کے جدید شعراء کا کلام اور سب کی حیات کے بارے میں کتابیں اس ُکتب خانے میں موجود ہیں۔میرتقی میرؔ،سوداؔ، نظیر اکبر آبادؔی، عزیز لکھنویؔ،صفی لکھنویؔ، ثاقب لکھنویؔ، ناسخؔ، آتشؔ،ہندومرثیہ نگار شعراء کی کتابیں اور سوانحِ حیات بھی اس ُکتب خانے میں موجود ہیں۔ ادارہِ مرکزِعلوم ِاسلامیہ کے تحت اس ُکتب خانے کی صفائی ستھرائی وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے کتابوں کی چمک دمک برقرار رہتی ہے۔۲۰۰۸؁ء ماہِ نومبر میں اس ُکتب خانے کی صفائی میرے حصّے میں آئی میں نے اپنے دونوں بیٹوں بریر علی اور جون علی کی مدد سے آٹھ روز میں بڑی محنت اور جانفشانی سے اس کا رِ خیر میں کامیابی حاصل کی ایک ایک کتاب کو اچھی طرح صاف کرکے بڑے قرینے سے دوبارہ اس کی اصل جگہ پر رکھا۔ کام بہت مشکل تھا لیکن تھا دلچسپ ،ایسی ایسی نایاب کتابیں نظر آئیں کہ حیران ہوگئے۔ قرآنِ کریم کے صدیوں پرانے قلمی نسخے،شعراء کے کلام اور خطوط، سلاطینِ اُودھ اور نوابین لکھنؤ کے خطوط، ہندی، سنسکرت اور نہ جانے کس کس زبان کی کئی سونادر و نایاب ُکتب کواس احتیاط اور قرینے سے رکھا ہے کہ جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس ُکتب خانے کے چھ کمروں میں ُکتب کے انبار ہیں اُن سب کی ترتیب علاّمہ صاحب کے ذہن میں محفوظ ہے کہ کون سی کتاب کس خانے میں کون سے نمبر پر رکھی ہوئی ہے۔برِصغیرپاک وہند کے اس عظیم سپوت میں بہت ساری خوبیاں خالقِ کائنات نے اس طرح بھر دیں ہیں کہ ان کی شخصیت ممتاز نظر آتی ہے۔چار سو تصانیف کے باوجودغرور سے عاری یہ قدرتی شاہکار اب بھی مزید ُکتب کی اشاعت میں کوشاں ہے کچھ چھپنے کے لیئے پریس جاچکی ہیں کچھ کی پروف ریڈنگ ہورہی ہے کچھ کی کمپوزنگ ہورہی ہیں،کچھ لکھی جارہی ہیں۔دوہزار کے قریب مجالس کی تقاریر آڈیو اور ویڈیو علاّمہ ضمیراختر نقوی ڈاٹ کام پر سنی اور دیکھی جاسکتی ہیں۔پچاس سال کی وہ تمام تقاریر جو علاّمہ صاحب کے ُکتب خانے میں علاّمہ صاحب کے نجی کمرے میں ترتیب سے رکھی ہوئی ہیں بڑی تیز رفتاری کے ساتھ انٹرنیٹ پر اَپ لوڈ (upload) کی جارہی ہیں ادارہِ مرکزِ علومِ اسلامہ کے کارکن دن رات بڑی جانفشانی سے اس کام میں مصروف ہیں بہت جلد یہ تمام تقاریر آپ دیکھ اور سن سکیں گے۔ یہ ُکتب خانہ ایک ایسا قیمتی سرمایا ہے جو صدیوں یاد رکھا جائے گا۔علاّمہ صاحب کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اگر کوئی کتاب اس ُکتب خانے کی ابھی تک زینت نہ بن سکی تو اُسے فوراً شامل کیا جائے اس لیئے علاّمہ صاحب کوُ کتب کی تلاش رہتی ہے۔ مصنف دنیا کے کسی بھی حصّے کا ہو اپنی تصنیف کی پہلی کتاب علاّمہ صاحب کو ضرور ارسال کرتا ہے اور اس طرح روز بروز ُکتب خانے میں کتابوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ علاّمہ صاحب کی اپنی تصانیف جن کی تعداد چار سو ہے وہ بھی اس ُکتب خانے میں موجود ہے۔ جیسے ہی آپ داخلی دروازے سے اندر آئیں گے تو یہ کمرہ کمپوزنگ کے لیئے وقف ہے لیکن چاروں طرف کتابوں کے کیبنیٹ بنے ہیں دائیں طرف کے کمرے میں بھی کمپوزنگ کا عملہ بیٹھا ہے جو شب و روز کتابوں کی کمپوزنگ میں مصروف ہے اس کمرے میں بھی کتابوں کے کیبنیٹ بنے ہیں بائیں ہاتھ پر باورچی خانہ اُس کے برابر علاّمہ صاحب کا نجی کمرہ اس کے برابر میں باتھ روم ہے داخلی دروازے کے بالکل سامنے ُکتب خانے کا تیسرا کمرہ جو مکمل کتابوں سے سجا ہے اُس کے بعد چوتھا کمرہ، پانچواں کمرہ، چھٹا کمرہ،ساتواں کمرہ، تیسرے کمرے سے متصل اسٹور،اِن سب میں کتابیں ہی کتابیں الماریوں میں سجی ہیں کچھ روز پہلے انشور نس کمپنی کی ایک ٹیم ُکتب خانے کا معائنہ کرنے آئی تھی ،بڑی معقول آفر تھی۔ خدا جانے علاّمہ صاحب نے ُکتب خانے کا بیمہ کرایا یا نہیں۔اِس ُکتب خانے میں جاکر خود بخود ہاتھ کتابوں کی طرف بڑھتے ہیں۔ نگاہیںایک ایک کتاب کو بغور دیکھ رہی ہوتی ہیں دل چاہتا ہے کر یہ کتاب پڑھ لوں ،یہ نہیں،یہ کتاب پڑھ لوں تو بہت دیر تک اِس شش و پنج میں انسا ن مبتلا رہتا ہے اِدھر کتاب ہاتھ میں آئی اور پڑھنے بیٹھے سارا دن کتاب سے جان نہیں چھوٹے گی کتابوں کا سحرطاری ہوجاتا ہے۔اُٹھنے کو جی نہیں چاہتا ۔ مرکزِ علومِ اسلامیہ :- ادرۂ علوم ِ اسلامیہ علاّمہ صاحب نے ۱۹۷۰ء میں قائم کیا۔ اس ادارے کی بنیاد چالیس برس قبل معارف اہلِ بیت ؑ کے رسوخ اور علومِ اہلِ بیت ؑ کی ترویج کے لیئے رکھی گئی۔ یہ ایک فرد ِواحد صاحب ِ فکر و نظر کی تنِ تنہا قوت ِارادی عزم و اخلاص اور دوراندیشی تھی کہ جو آج ایک تہذیب گر اور ثقافت بکف ادارے کی صورت میں دنیائے شیعیت میں جگمگارہی ہے ۔کسی ادارے کی کامیابی اس کے بانی کے خلوصِ نیت کی آئینہ دار ہوتی ہے ایسے دور میں جہاں کسی علمی اور ادبی کام کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا ایک مشکل کام ہے اور کسی ادارے کو چلانا اس بے اعتمادی کے زمانے میں کسی طرح بھی فردِ واحد کے بس کی بات نہیں اگر سرمایہ ہے تو کام کرنے والے افراد نہیں ہوتے اور کام کرنے والے مل جائیں تو سرمایہ نہیں ہوتا۔ اور اگر دونوں باتیں میسّر ہوں تو حاسدین اور مزاحمین کہ جواپنی ذات سے بڑھ کر کسی کا بھلا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے اور اندرونی و بیرونی سازشوں کے ذریعے ایسے کاموں میں رکاوٹ اور ایسے ادارے کی بیخ کنی کے درپے رہتے ہیں ۔ایسے عَالم میں چالیس سال میں ایک ادارے کو محض اپنے عز م و یقین کی قوت پر ایک ادارے میں ڈھال لینا جہاں علاّمہ صاحب کے اخلاصِ نیت کی دلیل ہے وہیں مولائے کائنات علیہ السّلام پر یقین اور مودّت کا مظہر بھی ہے ۔جب ارادہ کیا گیا تو نہ سرمایہ تھا اور نہ افرادی قوت ۔آج مُلکی سطح سے بڑھ کر مرکزِ علوم اسلامیہ کے رکھے ہوئے سنگ ِ میل اور نشانِ منزل علم وادب اور شیعہ مذہب کی ہرشاہراہ پر نظر آئیں گے۔ مرکزِ علومِ اسلامیہ کا منشور: ۱۔ افرادِ ملّت میں حیات ِ معصومین ؑ کی آگاہی پیدا کرنا۔ ۲۔ شیعہ قوم میں معصومین علیہم السلام کی ولادت و شہادت کی تاریخوں کی اہمیت اُجاگر کرنا۔ ۳۔ تہذب ِ مجلس کی اہمیت اُجاگر کرنا۔ ۴۔ کتابوں کے مطالعہ کا شعور اور شوق پیداکرنا۔ ۵۔ برسوں سے زیرِالتوااور تشنہ تحریر موضوعات پرکتابوں کی تصنیف و تالیف ترجمہ اور اشاعت۔ ۶۔ ملّت میں ذاکرین کے وقار کی بحالی۔ ۷۔ مدحِ محمدؐ و آلِ محمد ؐکا فروغ۔ ۸۔ خلوصِ نیت ،روحانیت اور معرفت کے ساتھ عزاداری کا انعقاد۔ ۹۔ قومِ شیعہ سے غربت اور افلاس کے خاتمے کے لیئے اقدامات۔ لوگوں میں ایک تصور یہ ہے کہ غریب کے ہاتھ پر چند سکّے رکھ دینے یا مفلس اور مستحق کے گھرراشن پہنچادینے سے ہم نے اس کی غربت اور افلاس دور کردیا ۔دراصل یہ کج فہمی ہے اور تعلیمات ِ آئمہ ؑ کے مطابق بھی نہیں اصل اقدام یہ ہے کہ مستقل بنیادوں پر ایک ُکنبے کے افلاس کا خاتمہ کیا جائے۔لیکن کس طرح؟اِسی کا جواب مرکزِ علومِ اسلامیہ نے مہیّاکیا ہے۔ غیر مُلکی سفر:- علاّمہ سیّد ضمیراختر نقوی چونکہ ایک ایسی بین الاقوامی شخصیت بن چکے ہیں کہ اہلِ یورپ بھی اِنھیں قریب سے دیکھنا اور سننا چاہتے تھے۔ اس لیئے وہاں کے مومنین کے بے حد اصرار پر علاّمہ صاحب نے ۶؍نومبر ۱۹۸۰ ء کو پہلی بار یورپ کا سفر اختیار کیا۔ یہ علاّمہ صاحب کی شہرت کا اثر تھا کہ جب علاّمہ صاحب نے محرّم کی مجالس کا آغاز کیا تو بلا تفریق قوم و نسل ،مذہب و ملت شیعہ ُسنی ،ہندو قادیانی،عیسائی سب کے سب پابندی سے مجالس میں شرکت فرماتے رہے اور اُنہی کے پسندیدہ سوالات پر مشتمل موضوعات پرعلاّمہ صاحب تقاریر فرماتے رہے۔ خاص طور پر اطاعت ِ رسولؐ و امامؑ، سورۂ رحمن،اسلام میں مزاح،تاریخ ِ فدک ،ماتم کیوں ہوتا ہے، کوفہ اور حضرت علیؑ کا عہد،نہج البلاغہ میں سائنسی اشارے،جنگ ِ خیبرو خندق اور اسلام میں شعروادب جیسے اہم ترین موضوعات شامل تھے صرف ہالینڈمیں پینتالیس مجالس سے خطاب فرمایا۔ گانگریس خباؤہالینڈ کا سب سے بڑا اور خوبصورت ہال ہے اس میں مرکزی مجلس سے جب علاّمہ صاحب نے ’’تاریخِ عزاداری‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا اور دورانِ خطابت ہندو مذہب اور ہندؤوں کی امام حسین ؑ سے عقیدت پر جو گفتگو کی تو سوری نامی یورپین جوکہ نسلی طور پر ہندوستانی ہیں اور ملی جلی ہندی اُردو پوربی زبان بولتے ہیں سرشاری کی کیفیت میں مجلس میں جھوم رہے تھے ۔مجلس کے بعد علاّمہ صاحب کے ہاتھ چومنے لگے ہالینڈ میں حسینی مشن کے ادارے نے ان مجالس کو ترتیب دیا تھا، یہ ادارہ ہالینڈ میں غریبوں کی مدد بھی کرتا ہے۔ طلباء کو وظائف بھی دیتا ہے اور عید ین کی نماز کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ محسن اختر،سرفراز حیدر جعفری،اعجاز سیفی،رانا نواز،مظہر جعفری،اکبر پنجوانی، محمد اکرم، حیدر عباس،انصرزیدی،شفیع اصفر،مرزا عابد،کاظم حسین،آلِ رضا رضوی اور اختر شاہ صاحب اس ادارے کے روح رواں تھے۔ ایک صاحب تو علاّمہ صاحب کے اتنے گرویدہ ہوئے جبکہ وہ حنفی سُنی مسلمان تھے اظہر فردوس صاحب یہ بچپن سے لندن میں رہے پھر ہالینڈ میں سکونت اختیار کر لی ماتم بھی کرتے تھے۔ اُنھوں نے خود کو اپنی کارسمیت جب تک علاّمہ صاحب ہالینڈ میں رہے وقف کردیا تھا۔۳۱؍دسمبر ۱۹۸۰ء کو جب اُن کی اہلیہ کے بیٹی کی ولادت ہوئی تو وہ علاّمہ صاحب کو ہاسپٹیل لے گئے اور کہا کہ علاّمہ صاحب!وہ اذان بچی کے کان میں کہیں جس میں خیرالعمل کی دعوت ہے، اور بیٹی کانام صغرا رکھا۔ بلجیم ہالینڈ سے زیادہ دور نہیں تقریباً تین گھنٹے کا سفر ہے بشیر رحیم صاحب جو کہ نائجیریا کے سفیر کی حیثیت سے بلجیم میں خدمات انجام دے رہے تھے اُن کی دعوت پر علاّمہ صاحب بلجیم تشریف لے گئے۔ یہاں بھی علاّمہ صاحب کی تقاریر نے مومنین اور اہلِ بلجیم کو علاّمہ صاحب کا گرویدہ بنادیا۔ یہاں کی مشہور شخصیت تقی راوجی جوکہ یہاں کی بانی عزادار ہیں اُنھوں نے اپنے مکان پر بلجیم کی مرکزی مجلس سے خطابت کی دعوت دی ۔علاّمہ صاحب نے حدیث ِ کساء کے موضوع پر خطاب فرمایا۔اس مجلس میں ایک خاص بات یہ ہوئی جو شاید ہی کہیں دیکھنے اور سننے میں آئی ہو وہ یہ کہ علاّمہ صاحب کی تقریر کے بعد ماتمی انجمن نوحہ خوانی و سینہ زنی کررہی تھی کہ بشیر رحیم صاحب نے دورانِ ماتم یہ اعلان کیا کہ تقی راوجی کی خواہش ہے کہ علاّمہ صاحب کی تقریر سے ابھی دل نہیں بھرا اس لیئے گزارش ہے کہ علاّمہ صاحب ایک تقریر اور کردیں اور وہ تقریر امام باڑے کی اہمیت کے موضوع پر ہو۔ بس جناب ِ سفیرِ نائجیریا کا اعلان کرنا تھاکہ تمام ماتمیوں نے ماتم روک دیا اور دوبارہ فرشِ عزا پر بیٹھ گئے ۔علاّمہ صاحب نے تقریر کا آغاز کیا شروع سے آخر تک گریہ، موضوع ہی ایسا تھا۔ تقریر کے بعد دوربارہ نوحہ خوانی اور سینہ زنی ۔سبحان اللہ۔ دوسری بار بلجیم میں پاکستان کے سفیر جناب عقیل رضوی صاحب کی دعوت پر علاّمہ صاحب تشریف لے گئے۔ عقیل رضوی صاحب سے ملاقات تقی راو جی کے مکان پر مجلس میں ہوئی تھی۔ عقیل رضوی صاحب علاّمہ صاحب سے بہت متاثر ہوئے۔ تیسری مرتبہ بشیر رحیم صاحب کی دعوت پر پھر بلجیم تشریف لے گئے۔ وہ علاّمہ صاحب سے کچھ اسلامی تاریخی حقائق پر گفتگو اور معلومات چاہتے تھے۔ علاّمہ صاحب نے وہ تمام تاریخی حقائق کھل کر بیان فرمائے۔ جن کی وجہ سے بشیر رحیم صاحب تَذَبذُب کاشکار تھے۔ علاّمہ صاحب سے الوداعی ملاقات میں علاّمہ صاحب سے کہنے لگے کہ زندگی میں پہلی بار کسی عالم سے ملاقات ہوئی ہے۔ یوں تو بریڈفورڈ، برمنگھم،مانچسٹر اور ہونسلومیں امام باڑے بھی ہیں مجالس بھی ہوتی ہیں علاّمہ صاحب نے سب جگہ مجالس سے خطاب کیا لیکن لندن علاّمہ صاحب کی مجالس کا مرکز بنارہا۔ اس لیئے کہ لندن کی عزاداری کو مرکزیت حاصل ہے۔ ان مجالس کا انتظام تنویر اختر نقوی ،اقتدار نقوی اور علی اختر زیدی صاحب جیسے اکابرینِ مومنینِ لندن کے سپرد تھا۔پندرہ روزہ قیام میں علاّمہ صاحب نے متواتر مجالس سے خطاب فرمایا، یہاں بھی شیعہ سُنی ،قادیانی،عیسائی ہندو، یورپی اور غیر یورپی تمام مذاہب کے لوگ پابندی سے آتے رہے۔ علاّمہ صاحب ادارۂ جعفریہ کے دعوت نامے پر لندن تشریف لے گئے تھے جوکہ لندن کا سب سے بڑا مذہبی ادارہ ہے ۔تیسری مجلس میں علاّمہ صاحب کی تقریر سننے کے لیئے مولانا کلب ِ صادق صاحب جوکہ اُسی روز امریکہ سے لند ن آئے تھے۔ مولانا سبط ِ حسن صاحب کے فرزند وارث حسن صاحب جنھوں نے لندن یونیورسٹی سے نہج البلاغہ میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔ اور پاکستان کے معروف شاعر افتخار عارف صاحب نے بھی شرکت کی، اُس روز تقریر کا موضوع تھا ’’لندن میں مسلمانوں کے لیئے زبان کا مسئلہ‘‘ اب آپ اندازہ لگایئے کہ اس انوکھے موضوع کو مجلس کے رنگ میں شامل کرنا کیا کوئی معمولی بات ہے۔ شرکاء مجلس دنگ رہ گئے۔ بی بی سی لندن کی جانب سے اُن کے نمائندے نے علاّمہ صاحب کو انٹرویو کی دعوت دی ،بی بی سی کے یاور عباس نے انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس پروگرام کے پروڈیوسر علی اطہر صاحب تھے۔ اتوار کے روز۲۱؍دسمبر کو یہ انٹرویو خبروں کے بعد نشر ہوا تمام ممالک میں علاّمہ صاحب کا انٹر ویو سُنا گیا۔ علاّمہ صاحب مجالس سے خطاب بھی فرماتے رہے اور ساتھ ساتھ لندن کے علمی و ادبی حلقوں سے ملاقات بھی جاری رہی ۔لندن یونیورسٹی اور برٹش میوزیم کا دورہبھی کیا۔ محترمہ امیر زہرا صاحبہ،شعبہ ٔ اردو کے صدر پروفیسر رالف رسل اور پروفیسر ڈیوڈ میتھیوز سے بھی ادبی نشتیں رہیں۔برٹش میوزیم کے لیئے علاّمہ صاحب کا کہنا ہے کہ :- برٹش میوزیم میں جاکر علم وادب کی عظمتوں کا احساس خود بخود بڑھ جاتا ہے۔ برٹش میوزیم ایک اعظیم الشان علمی قلعہ جس میں دنیا کی ہرزبان کی مختلف علوم پر قیمتی ترین کتابیں موجود ہیں۔ وہ قلمی نسخے جن کے صرف کتابوں میں حوالہ جات ملتے تھے اُنھیں باقائدہ دیکھنے کا موقع ملا۔ انجمنِ فروغِ عزا لندن کی دعوت پر علاّمہ صاحب دوسری بار ۱۱؍جون ۱۹۹۹ء کو لندن تشریف لے گئے۔ اس بار اٹھائیس روز لندن میں قیام رہا اور مختلف مقامات پر مجالس سے خطاب فرمایا۔اِس مرتبہ لندن کی بہت سی علمی و ادبی شخصیات سے ملاقات بھی رہی اور لندن کی سیر بھی کی۔ علاّمہ صاحب کی سیر بھی ایک ریسرچ ور ک ہے۔ جہاں بھی جاتے ہیں تو وہاں کے ماحول کا ،لوگوں اور اُن کے رہن سہن کا، وہاں کی عمارات کا، موسم کا وہاں کی تہذیب کاغائرانہ مشاہدہ کرتے ہیں۔ جب آپ علاّمہ صا حب کا سفر نامہ پڑہینگے۔تو آپ کو معلوم ہوگا ۔ علاّمہ صاحب فرماتے ہیں کہ لندن میرے لیئے اجنبی شہر تو نہیںتھا۔ اُنیس برس پہلے ہم پورا شہر گھوم پھر کے دیکھ گئے تھے۔ آج بھی اُسی بانکپن سے پورا شہر ایک سجے ہوئے دُولھا کی طرح برات چڑھنے کو تیار نظر آیا۔ سرپر سنہری پگڑی،شملے کے پیچ بل کھاتے ہوئے لہراتے ہوئے ،کلغی میں دُنیا کا سب سے قیمتی ہیرا کوہِ نور جڑا ہوا،جسم پر شاہانی پوشاک زیب ِ جسم جگمگ کرتی ہوئی، ہریالابَنا جس کی دُلہن بے شمار، امریکہ بھی اُسکی دُلہن، ہندوستان بھی اُسکی دُلہن ،ایک ایک کرکے اس دُولھا نے ساری دُلہنوں کو طلاق دے دی ۔ایک صدی گزرگئی دُولھا اب تک ایسا ہی سجیلا ہے ۔دُولھا کی دُلہن گھر سے بھاگ جائے تو دُولھا پر کیا اثر پڑتا ہے۔ دیکھیئے نا! ڈائنا گھر سے بھاگ گئی تو منہ تو اُس کا کالا ہوا، شہزادے کا کیا بگڑا؟کچھ بھی تو نہیں۔کسی دُولھا کی دُلہن گھر سے باہر قدم نکالے تو طلاق تو ہوہی جاتی ہے۔ سینٹرل لندن میں اسلامک سینٹر کی ایک خوبصورت عمارت ہے۔ ایرانی حکومت نے اس وسیع ترین عمارت کو خرید کر اس کو مذید خوبصورت بنادیاہے۔ اس کی پہلی منزل پر نماز ہوتی ہے جبکہ دوسری منزل پر جوہال ہے اُس میں مجالس اور محافلِ میلاد۔مغرب کی نماز حجتہ اسلام آیت اللہ محسن اراکی پڑھاتے تھے۔ علاّمہ صاحب کی دس روزہ تقاریر کا انتظام اسی عمارت کی دوسری منزل کے ہال میں تھا۔ علاّمہ صاحب کو اس عشرہ کا موضوع ’’اسلامی عملِ حیات کربلا کی روشنی میں ‘‘ دیا گیا علاّمہ صاحب نے حسب ِ عادت و فطرت ان دس روزہ مجالس میں اس موضوع پر علِم کے دریا بہادیئے۔ ان تقاریر کو سننے غیر مسلم بھی آتے تھے اور غیر شیعہ بھی لیکن علاّمہ صاحب کی گفتگو مذہبی مُنافرت اور فرقہ واریت سے بالکل پاک تھی۔ عقلی اور قدرتی دلائل سے سامعین کو اپنا گرویدہ بنالیا۔یہی وجہ ہے کہ سب نے یکساں طور پر علاّمہ صاحب کو بہت پسند کیا ایسے فضائل و مناقب اور مصائب بیان کیے کہ لندن کے درو بام سے علی ؑ علی ؑ اور حسین ؑ حسین ؑ کی صدائیں بلند کرادیں۔ علاّمہ صاحب کی سینکڑوں حضرات سے ملاقات ہوئی سب کا تذکرہ تو بہت مشکل ہے کہ کیا جائے لیکن وہ علمی و ادبی لوگ جو علاّمہ صاحب کی تقاریر سننے کے لیئے بلاناغہ مجالس میں شریک ہوئے اور علاّمہ صاحب کے ساتھ رہے یا جن کے یاں علاّمہ صا حب کا قیام رہایا میڈیا اور عوامی حلقوں کے مشہور و معروف حضرات کا مختصراً ذکر کردیا جائے تو بہتر ہے ۔آیت اللہ محسن آراکی ،آیت اللہ طیب آغا جزائری (ایران) مُلا اصغر علی جعفر (صدرورلڈ فیڈریشن خوجہ جماعت) مولانا ڈاکٹر کلب ِ صادق (لکھنؤ) مولانا حیدر شیرازی ،مولانا محمد حسن معروفی،مولانا شمیم الحسن(بنارس) سیّد رضا علی عابدی ، سیّد منظر عباس نقوی اور اُن کی شریک ِ حیات ہما ،سعید کاظمی سابقہ ڈائریکڑ ریڈیو پاکستان اور بی بی سی،نوید عباس نقوی ،امیر زہرا،ڈاکٹر اعجاز حسین، حیدر رضوی، امیرامام حُر، پروین زیدی،ڈاکٹر وصی حیدر ،اسلم ہاشم،حیدر طباطبائی ،عاشور کاظمی،اقبال مرزا،سمیع حیدر، آصف فرشتہ اور علی حسن کاظمی قابلِ ذکر ہیں۔ اسٹین مور کے امام بارگاہ میں علاّمہ صاحب نے ’’عہدِ حاضر میں عزاداری کی اہمیت‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا ’’حُسینہ اسلامک مشن ‘‘یورپ میں خوجہ اثناعشری کی بہت بڑی انجمن کے روحِ رواں مُلاّاصغر علی جعفر خاص طور پر علاّمہ صاحب کی خطابت اور علمیت سے بہت متاثر ہوئے۔ یہیں علاّمہ صاحب سے مولانا قنبر جو رائے بریلی سے عشرہ پڑھنے لندن آئے تھے ملاقات کی،اُنھوں نے علاّمہ صاحب کو حسینی انسائیکلوپیڈیا پیش کیا جو حسینی ریسرچ سنیٹر لندن نے شائع کیا تھا۔ اس کتاب کے مولف آیت اللہ محمد صادق کربائی نے پہلی جلد میں جو عربی میں شائع ہوئی ہے علاّمہ صاحب کا تذکرہ اس کے صفحات ۔۱۷۴،۱۷۵،۱۷۶،۲۱۵،۲۷۴،۲۸۸پر کیا ہے۔ حسینی مشن ہنسلو میں بھی علاّمہ صاحب نے ایک محفل ِمیلاد سے خطاب کیا یہاں ایک چرچ کو خریدکر نہایت خوبصورتی سے امام باڑہ اور مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے۔ جسٹِس علی کے چھوٹے بھائی ابرار نقوی صاحب کا نام اس ادارے کے بانیانمیں سرفہرست ہے محفل ختم ہوتے ہی علاّمہ صاحب کے گلے لگ کر بہت دیر تک روتے رہے دونوں کے خاندانی مراسم لکھنؤ سے چلے آرہے تھے۔ شایدپرانا وقت یاد آیاہوگا۔ اور علاّمہ صاحب کو اس مقام پر دیکھ کر فرط ِ جذبات اور عقیدت سے مجبور ہو کر اظہار ِ محبت کیلئے اشکوں کا سہارا لیا ہو۔ لندن یونیورسٹی ایڈلائن ڈیلیوسی وَن میں ایک ادبی نشست منعقد ہوئی اس تقریب میں لندن کے تمام شعراء،ادیب اور نقاد موجود تھے۔ حیدر طباطبائی نے علاّمہ صاحب کی شخصیت پر روشنی ڈالی۔ علاّمہ صاحب سے فرمائش کی گئی تھی کہ ’’اُردو مرثیہ اور میرانیس‘‘ کے موضوع پر خطاب فرمائیں،تقریب کے بعد علاّمہ صاحب کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا جنگ اخبار لندن کے سلمان آصف نے ایک شام علاّمہ ضمیراختر کے نام ایک خصوصی انٹرویو میلنیم کے موضوع پر ریکارڈ کیا جو لندن کے اخبارات میں شائع ہوا۔ برمنگھم کے لوگ روازنہ علاّمہ صاحب کی تقریر سننے لندن آتے تھے اُن سامعین کی خواہش تھی کہ برمنگھم میں بھی خطاب فرمائیں۔علاّمہ صاحب اپنے سفر نامے میں برمنگھم جاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:- حیدر رضوی صاحب کے گھر سے برمنگھم کا سفر شروع ہوا۔ عقیل حسین اپنی خوبصورت کارلے کرآئے ہوئے تھے اُن کے ساتھ یہ سفر شروع ہوا،ہم برمنگھم جارہے تھے خوبصورت و ادیاں حد ِ نگاہ تک نظر آرہی تھیں۔ دونوں طرف زَمرد کی طرح سبزہ زمین پر پھیلا ہوا تھا آسمان پر سرمئی بادل چھائے ہوئے تھے۔ گلاب کے پھولوں پر بہارآئی ہوئی تھی۔ چھوٹے چھوٹے قصبے اور گاؤں ،صاف ستھرے مکانات اونچی نیچی پہاڑیاں اور دلفریب مناظر دل کو موہ لیتے ہیں ۔بقول میرانیسؔ:- صحرا کا جو دامن تھا وہ پھولوں سے بھرا تھا راستے کے خوبصورت مناظر دیکھ کر دل و دماغ پر ایک پرسکون تاثر قائم ہوگیا تھا۔ کچھ دیر عقیل حسین صاحب کے گھر قیام کرنے کے بعد علاّمہ صاحب جیسے ہی برمنگھم کے امام باڑے ’’العباس ‘‘پہنچے بڑا پرتپاک استقبال ہوا۔ محفلِ میلاد منعقد تھی پوری عمارت روشنیوں سے جگمگارہی تھی۔ مومنین برمنگھم کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا،علاّمہ صاحب کی آمد پر دل بَلّیوں اچھل رہا تھا۔ کیا شاندار پذیرائی ہوئی۔علاّمہ صاحب زندہ باد… برمنگم سے دو گھنٹے کی مسافت پر بریڈ فورڈ ہے یہاں دو امام باڑے ہیں ایک حیدری مشن دوسرا حسینہ اسلامک مشن یہاں بھی محفل ِ میلاد سے خطاب فرمایا، مولانا سیّد شبیہ الحسن رضوی لکھنؤ میں مدرسۂ ناظمیہ اور الواعظین کے تعلیم یافتہ، پیش نماز کے فرائض انجام دے رہے تھے اُن کی فرمائش پر ’’شعرائے اردو اور عشقِ محمد ؐ و آلِ محمد ؐ‘‘کے موضوع پر خطاب فرمایا۔ بریڈ فورڈ سے علاّمہ صاحب اپنے حسین آباد ہائی اسکول لکھنو ٔکے ہم جماعت اور قریبی عزیز ڈاکٹر سیّد محمد حیدر نقوی سے ملنے کے لیئے بوسٹن گئے دوپہر کا کھانا اُن کے ساتھ کھایا اور شام ہونے سے پہلے بریڈ فورڈواپس آگئے۔ قارئین کرام! علاّمہ صاحب کا طرز ِتحریر اور اسلوب ان کی تقریر کی طرح منفرد اور لاجواب ہے دل چاہتا یہ تھا کہ میں اپنے الفاظ میں علاّمہ صاحب کے سفر نامے کو ’’اُوجِ ضمیر‘‘ کی زینت بناؤں۔لیکن میں علمی وادبی نکتوں کے نشیب و فراز سے نابلد ہوں کسی بھی طرح علاّمہ صاحب کے جوتے میں پاؤں رکھنے کا اہل نہیں ۔ادنیٰ کو اعلیٰ سے کیا نسبت ۔اس لیئے سفرنامے کی تحریر کو بیشتر مقامات پر من و عن نقل کردیا تاکہ کتاب کا حُسن برقرار رہے۔ توحاضر ہے ایک اور اقتباس علاّمہ صاحب کے سفرنامے سے ۔ تنویر نقوی جو میرے چھوٹے بھائی ہیں چوبیس برس سے لندن میں قیام پذیر ہیں۔ شادی بھی وہیں ہوئی اور ماشاء اللہ دو بچے ہیں ۔بیٹی فاطمہ اور بیٹا ظفر عباس۔ تنویر کی بیوی معصومہ ایک بہترین خاتون ہیں۔ سب سے آخر میں اُن کے گھر ٹھہرنے کا موقع ملا۔ تنوتر نقوی Edwards Mews Islington میں رہتے ہیں یہ علاقہ لندن کا مرکزی حصّہ ہے ۔تنویر نقوی کے گھر کے جس کمرے میں ہمارا قیام تھا اُس کی پچھلی کھڑکی سے روزانہ طلوعِ صبح کا منظر نظرآتا تھا۔ سورج روز نکلتا تھا،آسمان گہرا نیلا روشن نظر آتا تھا ۔ان کے گھر کے پیچھے خوبصورت باغ کا سلسلہ ہے دور تک سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے۔ درخت اور بیلیں خوش رنگ پتوں سے لدے ہوئے۔ وہاں کے لیئے تو گرمی کا موسم تھا ہمارے لیئے خوشگوار ُخنک ہوا ،گلابی جاڑے کی ہوا محسوس ہوتی تھی شبنم کے قطرے پھولوں پر صاف نظر آتے ہیں۔ بقول میرانیسؔ:- کھاکھا کے اَوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا کبھی کبھی بادل ایک پھوار ڈال کر اِدھر سے اُدھر پھیل جاتے تھے۔ساون بھادوں کا موسم تھا ۔ لندن کے خوبصورت مناظر دیر تک یاد رہتے ہیں بارش کے بعد نیلا چمکدار آسمان اور زیادہ نیلا نظر آنے لگتا ہے۔ افلاک بھی دھانی ہوئے پرتو سے زمیں کے خوشگوار دھوپ میں دھوپ چھاؤں کے مناظر اور سبزہ زار ایسا معلوم ہوتا ہے بقول میرانیسؔ:- تھا فرش پر شجر کے تلے دھوپ چھاؤں کا ------------- خورشید جو ڈر ڈر کے چھپا اور نکل آیا گہہ دھوپ تھی سایے پہ کبھی دھوپ پہ سایا تنویرنقوی نے دو تین مرتبہ دعوت کا انتظام کیا حالانکہ معصومہ بیگم روزانہ بہترین کھانا کھلاتی تھیں۔ ارہر کی دال اور چاول پکتے تھے ساتھ میں شامی کباب، ایک دن اُنھوں نے ہم سے ارہر کی دال پکانے کی ترکیب بھی پوچھی،ہم نے اُنھیں بتایا لہسن اور سرخ مرچ کا مسالہ ہو اور لہسن سے دال بگھاری جائے۔ لندن میں ہر پھل اور ہر سبزی ملتی ہے۔ کچے آموں کی بہتات تھی نورتن چٹنی کا سامان ہم نے منگوالیا۔ معصومہ بیگم نے سامان منگایا عرقِ نانا(سفید سرکہ) کشمش ، چھوارے، کلونجی،چرونجی، سرخ مرچ لہسن وغیرہ، نورتن چٹنی کی ترکیب ہمارے خاندان کی خاص چیز ہے۔ چٹنی تیار ہوئی روزانہ کھانے میں خوب کھائی جاتی تھی۔ الوداعی دعوت آصف علی فرشتہ نے اپنے گھر پر کی۔ اور علاّمہ صاحب کی خدمت میں وہ تقریر جو اسلم ہاشم صاحب نے آخری مجلس میں علاّمہ صاحب کی شخصیت کے بارے میں کی تھی ایک شیشے کے فریم میں سجا کر نہایت خوبصورت انداز سے پیش کی۔ علاّمہ صاحب ۸؍جولائی ۱۹۸۰ء کو لندن سے کراچی واپس آگئے۔ علاّمہ صاحب تیسری بارالخوئی فاؤنڈیشن کے دعوت نامے پر جشنِ مولود ِ کعبہ اور حضرت علی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے ۲۰؍اکتوبر۱۹۹۹ کو لندن پہنچے۔اس بار علاّمہ صاحب کا قیام ایک مہینے بارہ دن رہا۔ الخوئی فاؤنڈیشن آیت اللہ ابو القاسم خوئی کے نام سے منسوب ہے یہ ادارہ یورپ میں تعلیمات ِمحمد ؐو آلِ محمدؐ کے ساتھ ساتھ عربی کی ترویج وترقی کے لیئے بھی کوشاں ہے۔ اس کے علاوہ روس کی ریاستوں،الجزائر ،سوڈان،لبنان،فلسطین، شام اور عراق وغیرہ کے سیاسی امور اور مسائل میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ کئی اخبارات ،رسائل و جرائد بھی باقائد گی سے شائع کرتا ہے کئی ممالک میں اس کے اخبارات کے ذیلی دفاتر بھی قائم ہیں۔ اِسی ادارے کے زیرِنگرانی لندن میں مدرسہ ٔ امام صادق ؑ،خواتین کے لیئے مدرسۂ زہراؑ اور بچوں کے لیئے الخوئی اسکول بھی قائم ہے۔ اس کی شاخیں نیویارک، مانچسٹر، بمبئی، اسلام آباد کراچی،مونٹریال،بنکاک اور پیرس میں بھی قائم ہیں۔ علاّمہ صاحب کے میزبان آیت اللہ ابوالقاسم الخوئی کے چھوٹے فرزندآیت اللہ مجید الخوئی تھے۔ اُنہی کے دعوت نامے اور اصرار پر علاّمہ صاحب لندن تشریف لے گئے۔ علاّمہ صاحب کے علاوہ بھی پوری دنیا سے عربی،فارسی،اُردو اور انگریزی کے نامور اسکالر ،شعراء،خطباء اور علماء کو ان تقاریب میں موعو کیا گیا تھا۔ الخوئی سینٹر کا اسمبلی ہال دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جو نہایت وسیع و عریض ہے دیواروں پر ایرانی نقش ونگار اور ایرانی قالینوں سے مزین اس ہال کی بلندی اور شا ن و شوکت قابلِ دید ہے، اِسی ہال میں نماز اور مجالس بھی ہوتی ہیں اور محافل بھی ، جشنِ مولودِ کعبہ میں تمام شعرا ء جب اپنا کلام پیش کرچکے تو اب صدرِ محفل علاّمہ صاحب کی تقریر ہوئی علاّمہ صاحب نے تقریر کے آخر میں اپنے نو تصنیف مرثیے سلیمانِ امامت کے دو بند پیش کئے جو مولائے کائنات امیرالمومنین ؑکی مدح میں ہیں، الخوئی اسمبلی ہال لمبائی میں رضویہ امام بارگاہ سے وسیع اور چوڑائی میں امام بارگاہ سجادیہ سے کچھ زیادہ ہے۔ پورا ہال شرکاء سے بھرا ہوا تھا تل دھرنے کو جگہ نہ تھی دادِ تحسین کے نعروں سے ہال گونجنے لگا۔ اس بار جن نئی اور اہم شخصیات سے علاّمہ صاحب کی روزانہ ملاقات رہی اُن میں سرِ فہرست آیت اللہ مجید الخوئی۔مولانا سیّد شمیم السبطین رضوی بانیٔ ایس آئی ایجوکیشن سوسائٹی لندن، سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان سیّد نسیم حسن شاہ اور حکیم نیرواسطی کے کلاس فیلو سیّد مسعود الحسن زیدی،بانیٔ پاکستان قائد ِ اعظم محمد علی جناح کے بارہ نیشنل گارڈز کے ایک گارڈ سیّد غلام عباس زیدی اور اُن کے تینوں بیٹے رئیس عباس، مظہر عباس،اور نسیم عباس،مولانا سیّد محمد سرور سبزواری پروگرام آرگنائزر جشنِ مولودِ کعبہ وحضرت علی بین الاقوامی کانفرنس پرنسپل مدرسہ ٔ العصر،مدیر سہ ماہی رسالہ العصر لندن۔ جناب مصطفی ماؤ جی،مذہبی ریسرچ اسکالر لندن کے نوجوانوں کی آئیڈیل شخصیت۔ جناب مرتضیٰ لاکھا، ایک قومی رہنما،لیڈر اور کئی ُکتب کے انگریزی ٹرانسلیڑ۔ جناب سیّد محمد رضا َشبر’’مقدس خانہ کعبہ کی کہانی اور اُس کے لوگ‘‘ جیسی بہترین کتاب کے مصنف محمد ی ٹرسٹ کے بانیان میں ایک بانی۔ اس دورے میں علاّمہ صاحب اور آیت اللہ محسن آراکی کو بین الاقوامی دولت ِ مشترکہ (Common Wealth) ایورڈ لند ن بھی پیش کیا گیا۔ آخری پرواگرم جس میں علاّمہ صاحب کو ایورڈ دیاگیا۔ علاّمہ صاحب کی تقریر سن کر آیت اللہ محسن آراکی نے فرمایا کہ آپ کی تقریر کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ اُردو پڑھنا واجب ہے۔ علاّمہ سیّد ضمیراختر نقوی کا چوتھا سفرِ لندن یکم جولائی۲۰۰۰ ء کو شروع ہوا پچیس روز لندن میں رہے اور وہیں سے ۲۵ ؍جولائی کو امریکہ چلے گئے۔ اس مرتبہ لندن کے سفر میں علاّمہ صاحب کے کیا پورے گھر کے لاڈلے اور چہتے سیّد حسین رضا علاّمہ صاحب کے ہمراہ تھے۔علاّمہ صاحب کے یہ بھانجے راجہ علا ّمہ صا حب سے بے تکلف ہیں ۔علاّمہ صاحب نے کبھی بھی اُن کی بے تکلفی میں خلل اندازی نہیں کی اس لیئے کہ لاڈلے بہت ہیں۔ علاّمہ صاحب اپنے سفرنامے میں تحریر فرماتے ہیں کہ سیّد حسین رضا سلمہٗ(اللہ عمرِ نوح عطافرمائے آمین) میرے ساتھ تھے یوں تو وہ ہمارے گود کے پلے ہیں بچپن میں کاندھوں پہ سوار ہوئے ہیں۔ ہماری چیزوں کی توڑ پھوڑ کی ہے کتابوں کو گودا ہے، قلم توڑے ہیں ضدیں کی ہیں۔گلاب کے پھولوں میں پروان چڑے ہیں ۔پر اب قدہم سے اوپر مثلِ سرو کے نکل چکا ہے کہنے کو بھیّا کہہ کر پکارتے ہیں حُکم اَبّا کی طرح چلاتے ہیں ۔چھوٹے سے تھے تو چار پانچ مرتبہ لندن گئے تھے۔ اب بہ ہوش و حواس لندن کو قریب سے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اس لیئے میرے ہم سفر بنے ہیں۔ میں نے ٹیلی فون پر کہا……بیٹا حسین رضا میرا ٹکٹ اس طرح بنوادو کہ کراچی سے لندن،لندن سے نیویارک،واپسی پر نیویارک سے پھر لندن، لندن سے پھر کراچی۔ فوراً جواب آیا۔ کیا لندن کو تم نے لالوکھیت سمجھ رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ لالوکھیت گئے ہوئے اب چھ برس سے زیادہ ہورہے ہیں لیکن سال میں یہ تیسرا سفر تھا لندن کا۔ علاّمہ صاحب اس بار لندن کیا آئے کہ امریکہ سے ٹیلی فون کالز کا تانتا بندھ گیا۔ کیلیفورنیا سے صبا لکھنوی کے صاحبزادے ارشد صبا، مشہور شاعرہ سلطانہ ذاکراداؔ ، اٹلانٹاسے ضیارضوی اور بہت سے چاہنے والے کہ کب تشریف لارہے ہیں۔ عاشور کاظمی صاحب پچھلے سوسال کے مرثیہ نگاروں پر ایک کتاب شائع کرنا چاہتے تھے۔ اُن کی فرمائش اور اصرار پر علاّمہ صاحب اپنے ساتھ ۱۹۰۱ء سے ۲۰۰۰ء تک کے مرثیہ نگاروں کے مرثیے اور اُن کے حالات ِ زندگی کا ایک مکمل مسودہ بناکرلائے تھے جوعلاّمہ صاحب کے ادارے مرکزِ علومِ اسلامیہ کی رقم سے تیارہوا تھا۔ وہ کتاب کا مکمل خاکہ عاشور کاظمی صاحب کو دیا۔ علاّمہ صاحب کی لندن آمد کی خبر آناً فاناً پورے برطانیہ میں پھیل گئی۔ دور دور سے لوگ ملنے کے لیئے آنے لگے شبانہ کاظمی برمنگھم براڈ کاسٹنگ کی نیوز کا سڑ نے خبروں میں علاّمہ صاحب کی لندن آمد کا تفصیلی ذکر کیا۔ بی بی سی کی ایک خاتون نویندر بھوگل نے علاّمہ صاحب کا انٹرویوریکارڈ کیا جو بی بی سی کی نشریات کی زینت بنا۔برمنگھم کے سب سے خوبصورت ہال الحمرا سنیٹر میں عاشور کاظمی صاحب کی دو کتابوں مجموعہ مضامین ’’چھیڑخوباں‘‘اور مجموعہ شاعری ’’حرف حرف جنوں‘‘ کی رسم اجراکی تقریب علاّمہ صا حب کے زیرِ صدارت منعقد ہوئی۔ اس علمی و ادبی محفل کا اپنا ایک منفرد انداز اور رنگ تھا۔ جتنی تعریف کی جائے کم ہے لیکن لندن کے اخبار Nation نیشن میں ۲۸؍جولائی کو ڈاکٹر تسنیم زیدی کا جو مضمون شائع ہوا وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے آپ بھی پڑھیئے اُس کا کچھ حصّہ ازراہِ تبرک پیشہے۔ مضمون کاعنوان ہے ’’وہ شام جس پہ سحر کا گماں ہوتا ہے‘‘ نہ صرف علم و ادب کے مقتدر حضرات برطانیہ کے ہر شہر سے آئے تھے بلکہ پاکستان سے علاّمہ سیّد ضمیراختر نقوی جیسے آفتاب ِ علم و حکمت اور لندن سے حضرت جسٹس علاّمہ حسن رضا غدیری اور آقائے شیرازالکاظم حسنی جیسی عظیم المرتبت شخصیات بہ نفس ِ نفیس ’’الحمرا ہال‘‘ میں موجود تھیں یہ عاشور کاظمی کی بارہویں کتاب کی افتتاحی تقریب ہے۔ اس کی خبریں کئی روز سے مسلسل بی بی سی ریڈیو X.L سے نشر اور برطانیہ کے اُردو انگریزی اخبارات سے شائع ہوتی رہیں۔ تقریب کی نظامت سن رائز ریڈیو کے نیوز کاسڑ اکرم منہاس نے کی اور صدارت علاّمہ سیّد ضمیراختر نقوی نے کی، ممتاز افسانہ نگار اور صحافی مقصود الٰہی،یورپین اردو رائٹرز سوسائٹی برطانیہ کے صدر ارشاد احمد عثمانی مشہور شاعر ساحر شیوی، برطانیہ کے ممتاز شاعر جن کا تعلق شکارپور(بھارت) سے ہے اطہر راز نے نظمیں اور مقالے پیش کئے۔ آخر میں صدرِ محفل علاّمہ سیّد ضمیراختر نقوی نے گفتگو شروع کی تو محفل میں موجود میڈیا سے متعلق لوگ تو چونک ہی پڑے، آب ِ کوثر میں دُھلی ہوئی زبان، گفتگو کا انداز جیسے جھرنوں کی آواز،جیسے شبنم کے قطرے کسی نقرئی دیوار پر ٹپک رہے ہوں، جیسے موسیقی کی دیوی سرسوتی کے رقص پر امیر خسروؔ کی ترتیب دی ہوئی سات سروں کی سپتک ہرساز سے اُبھررہی ہو، دُنیانے وجد اور ساز، شاعری اور نغمگی ،سُراور تال کا ساتھ تو بار ہا دیکھا ہے لیکن کسی ایک آواز میں سارے سُر بھرگئے ہوں ایسا بہت کم نظر آیا ہے۔آج کی محفل میں علم اور موسیقی کی قدرتی آمیزش علاّمہ ضمیراختر نقوی کی آواز تھی جو علم و فیض کے دریا بہارہی تھی۔ کسی کتاب کے اجرأ پر ایسے عالم،ایسے ناقد اور اس سطح کے ادیب شاذونادر ہی نظر آتے ہیں۔ علاّمہ ضمیراختر نقوی کی تقریر کے کچھ حصّے نقل کرکے میں اس علمی تنقید اور گفتگو کے ٹکڑے کرنا نہیں چاہتی یہ گفتگو علیحدہ شائع ہوگی تو لطف آئے گا۔ تسنیم زیدی ’’نیشن لندن‘‘ علاّمہ صاحب نے اس دورے میں لندن کے کئی مشہور اور تاریخی مقامات کی سیر کی جن میں پکاڈلی سرکس،ٹرالفلگر،بکنگھم پلیس، سینٹ جیمز پارک ،گرین پارک، کنگسٹن گارڈن،میوزیم آف لندن، پارلیمنٹ ہاؤس،ویسٹ ِمنسٹر ،دریائے ٹیمز،سینٹ پال چرچ،مادام توساد اور آکسفورڈ وغیرہ شامل ہیں۔سیر کیا تھی وہاں کے مناظر اور انسانی اذہان کا مشاہدہ اور مطالعہ تھا۔ علاّمہ صاحب فرماتے ہیں کہ برطانیہ کے باشندوں نے اپنے ملک کو ترقی دینے کے لیئے بڑی محنت کی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ انھیں اس مُلک سے اس قدر محبت ہے ۔غالباً ایک اور وجہ سے بھی انگریزوں کو اپنے مُلک سے بے انتہامحبت ہے اور وہ ہے مناظر کا تنوع جو یہاں بدرجہ اُتم نظرآتا ہے۔ یہ دلکش مناظر ہر تھوڑے فاصلے کے بعد بد ل جاتے ہیں دھوپ چھاؤں کے یہ مناظر پھولوں کی بہتات، سبزے کی مختلف رنگتیں،کبھی تَرشح ہوتا رہتا ہے۔ کبھی سورج چمک رہاہوتا ہے۔ اور کبھی کبھی کھل کر بارش ہوتی ہے۔ بعض اوقات جنوری میں جولائی جیسی گرمی اور جولائی میں جنوری جیسی سردی پڑنے لگتی ہے۔ گلاب کے پھول موسم ِ بہار سے دسمبر تک کھلے رہتے ہیں۔سرسبزوشاداب درختوں اور پھولوں کی دلکشی پارکوں میں جاکر دیکھی جاسکتی ہے۔ علاّمہ صاحب سن ۲۰۰۰ء کے بعد کئی بار لندن گئے اور اب تو ہر سال جاتے ہی رہتے ہیں۔ لیکن وہ سفرنامے اور تفصیلات علاّمہ صاحب کی مصروفیات کی وجہ سے دسیتاب نہ ہوسکیں اور نہ ہی سفرِ یونان،سفرانڈیا،سفرِ عراق اور سفرِ ایران مل سکا اور نہ ہی سفرِ عرب امارات ۔ یہ سب انشاء اللہ علاّمہ صاحب کے سفرنامے ’’سفر ہے شرط‘‘ میں آپ حضرات کو ملے گا۔علاّمہ سیّد ضمیراخترنقوی کایادگار اور معلومات سے بھرپور سفرنامہ جوکسی بھی وقت منظر ِ عام پر جلوہ نما ہو کر آپ کے ہاتھوں کی زینت بن سکتا ہے۔ لیکن علاّمہ صاحب کو فرصت ملنا شرط ہے۔ سفرنامہ ہے تو مکمل مگر علاّمہ صاحب کی نگاہ میں نامکمل اس لیئے کہ علاّمہ صاحب نے سفرنامے کو حتمی شکل نہیں دی۔ جس دن ٹھان لی سفرنامہ اپنی آب وتاب کے ساتھ ادب کے اُفق پر جگمگارہاہوگا۔ علاّمہ صاحب اپنے پرواگرم کے مطابق لندن سے براستہ نیویارک اٹلانٹا پہنچے ائیرپورٹ پر ضیاء رضوی صاحب بیاض انجمن ِ غمخوارنِ عباس اپنے ساتھیوں کے ساتھ علاّمہ صاحب کے استقبال کے لیئے موجود تھے اُن کے چہرے علاّمہ صاحب کو دیکھتے ہی مثل ُگل کھِل پڑے، ضیاء رضوی کے گھر علاّمہ صاحب مہمان ہوئے۔ باکل گھریلو ماحول تھا علاّمہ صاحب کو محسوس ہی نہیں ہوا کہ دیارِ غیر میں ہیں۔ چونکہ ضیاء رضوی کی بیگم فرح بھی اپنے شوہر کی طرح مہمان نواز اور اُن کی ہم مزاج خاتون ہیں دوسرے یہ کہ ضیاء رضوی علاّمہ صاحب کے ہونہار شاگردوں میں سے ایک ہیں اور علاّمہ صاحب کے روحانی فرزند بھی ہیں۔ ضیاء نے ایک امام باڑہ بھی بنوایا ہے۔ علاّمہ صاحب نے جب امام باڑے کی زیارت کی تو بہت خوش ہوئے اور اس کی تعریف میں فرمایاکہ ’’ درِ عباس‘‘ کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔ایک آشیانہ ٔ حسینی جو پھولوں پر تعمیرہوا ہے چاروں طرف لہکتا ہوتا سبزہ، قد آور درخت،کشادہ کارپارکنگ ۔اندرونی ہال یوں محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کے کسی عزاخانے میں بیٹھے ہیں۔ چاروں طرف سیاہ رنگ کے اَدقچے پر کربلا کے شہیدوں کے نام احترام سے لکھے ہیں۔ علم پٹکوں اور پنجوں کانور، بلند منبر، قالین کا فرش کیا شاندار اور روحانی منظر ہے۔ امام باڑہ درِ عباس ؑ اٹلانٹا کی ہائے وے پرواقع ہے ۔شاہراہ کے کنارے باہر کی طرف درِ عباس پر حضرت ِ عباس ؑ کا سبز عَلم نصب ہے۔ یہ بھی درِ عباسؑ کی شاہی کا حشم ہے امریکہ میں بھی سایہ فگن حق کا عَلم ہے یہاں علاّمہ صاحب نے دو مجالس سے خطاب کیا پہلی مجلس ’’درِ عباسؑ‘‘ کے کارکن سیّد صادق حسین زیدی مرحوم کے ایصالِ ثواب کی تھی موضوع تھا ’’علمِ علیؑ‘‘ دوسری مجلس مشہور صاحب ِ بیاض انجمن ذوالفقار حیدری سیّد علی محمد رضوی (عرف) سچے بھائی مرحوم کے ایصالِ ثواب کی منعقد ہوئی اس مجلس میں مرحوم کے صاحبزادے علی بھی واشنگٹن سے شرکت کے لیئے آئے تھے۔ علاّمہ صاحب کا قیام اٹلانٹا میں چھ روز رہا۔ ان چھ روز میں علاّمہ صاحب کی کئی نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جو کبھی کراچی میں ریائش پذیر تھے اور تعلیم مکمل کرکے بسلسلہ ملازمت اٹلانٹا آگئے تھے۔یہ سب علاّمہ صاحب کی مجالس میں کراچی میں شرکت کیاکرتے تھے۔ اُس وقت چھوٹے تھے اب مائشاء اللہ جوان ہوچکے تھے کئی کی شادیاں بھی ہوگئی تھیں۔ اُن میں وصی حیدر زیدی،سجاد حیدر زیدی، سمیع حیدر زیدی، نقی حیدر زیدی،شجیع علی مرزا،وجیہہ علی مرزا،خاص طور پر قابلِ ذکر میں جو ضیاء رضوی کے ساتھ علمی ادبی اور مذہبی مجلسوں اور محفلوں کے روحِ رواں بھی ہیںان کے علاوہ رضا حسین زیدی، مسعود نقوی، انجمن کے صدر ڈاکٹر مہدی عابدی، انجمن کے جزل سکریڑی حسن افروز مرزا،ظہور عباس رضارضوی، رضا کاکا، محبوب کاظمی صاحب، ابوالحسن صاحب کرّار حسین زیدی ،عابد جعفری،رضا صاحب، سیّد صابر شاہ شمیم حسین زیدی، مجاہد تقوی،ناظم رضا،شاید نقوی ،آغا سکندر بھی شامل ہیں۔ یہ تمام لوگ انجمنِ غمخوارانِ عباس اٹلانٹا کے وہ اراکین ہیں جو مجلس کے بعد بھی علاّمہ صاحب کی بزم میں رہے۔ اٹلانٹا سے علاّمہ صاحب اپنے برادرِ حقیقی سیّد محسن اختر نقوی کے گھر پر سٹن روانہ ہوگئے۔ یہ وہ شہر ہے کہ جہاں امریکہ کی مہنگی ترین پرسٹن یونیورسٹی ہے۔ امریکہ کے دولت مند گھرانوں کے بچے یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ عام طالب ِ علم یہاں داخلے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔یہاں کی لائبریری بھی قابلِ دید ہے جس میں دنیا بھر کے قیمتی مخطوطات،بائبل اور قرآنِ مجید کے قیمتی اور قدیم ترین قلمی نسخے موجود ہیں۔ علاّمہ صاحب نے ایک دن پوری یونیورسٹی کی سیرکی خصوصاً ُکتب خانے کو تو تفصیل سے دیکھا۔ امام باڑہ محفلِ شاہِ خراسان میں منعقدہ سیرت ِ جناب فاطمہ زہراؐکی محفل سے خطاب فرمایا۔ یہ نیوجرسی کا قدیمی امام باڑہ کہلاتا ہے سلطان کرم علی بھائی نے ۱۹۷۵ء میں ایک خوبصورت چرچ خرید کریہ امام باڑہ بنایا تھا۔ نیویارک سے بہت قریب ہے۔ علاّمہ صاحب ۱۹۷۹ء کے عشرۂ اولی میں تقریباً پندرہ مجالس سے اس امام باڑے میں خطاب کرچکے تھے۔ جب پہلی بار امریکہ آئے تھے۔ یہاں کے سامعین کے بارے میں علاّمہ صاحب فرماتے ہیں کہ زیادہ ترسامعین کی علمی معلومات ناقص ہیں گنتی کے لوگ ہیں جو علمی معلومات کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ دوسری مجلس علاّمہ صاحب کے والد سیّد ظہیر حسن نقوی مرحوم کی پہلیبرسی کی امام باڑہ آستانہ ٔزہراؐ نیوجرسی میں علاّمہ صاحب کے بڑے بھائی سیّد محسن اخترنقوی نے منعقد کی۔سیّد محمد علی نقوی نے ۱۹۸۴ء میں ایک چرچ خرید کراس میں اسکول اور امام باڑہ قائم کیا اور ا س کانام آستانہ ٔ زہراؐ رکھا۔ ایک عجیب اور حیرت انگیزبات کی نشاندہی کرتاچلوں کہ پورے یورپ اور امریکہ میں جہاں کہیںبھی امام باڑے تعمیر ہوئے تمام کے تمام چرچ خرید کربنائے گئے اور وہاں کی حکومتوں اور عوام نے ان کے خلاف نہ ہی توکوئی کاروائی کی،نہ ہی مجلس و ماتم سے روکا، نہ ہی کوئی پابندی لگائی ایک اور حیرت انگیز بات علاّمہ صاحب نے بتائی کہ ایامِ عزا میں وہاں کے پادری یاچرچ کی انتظامیہ مجالس اور ماتم کیلئے بخوشی چرچ کرائے پردے دیتے ہیں۔ نہ ہی اُن کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور نہ ہی مذہبی منافرت پیدا ہوتی ہے۔ تو کتنے اچھے ہیں یہ غیر مسلم اُن لوگوں سے جو عزاداری کے خلاف دن رات سازشوں میں مصروف ہیں۔ آستانۂ زہراؐ میں مجلس کا آغاز ہوا ہاشم رضا عابدی نے چند سو ز پیش کئے اُن کے بعد احتشام حیدر نقوی نے سلام و مرثیہ پیش فرمایا۔نیوجرسی کے ممتاز شاعر شہاب کاظمی نے ایک نظم در مدح حضرت فاطمہ زہراؐ پیش کی اور آخر میں علاّمہ صاحب نے مجلس سے خطاب فرمایا۔ سیّد محسن اخترنقوی نے اپنی والدہ مرحومہ سیّد محسنہ بیگم نقوی کے نام پر سٹن نیوجرسی میں ایک ادارہ قائم کیا ہے ’’محسنہ میموریل فاؤنڈیشن ‘‘ اس ادارے کو اقوام متحدہ کی رُکنیت بھی حاصل ہے اس ادارے کے تحت ایک اخبار News and Views بھئی شائع ہوتا ہے۔ انگریزی کایہ اخبار امریکہ کی تمام ریاستوں میں جاتا ہے۔ پورے امریکہ میں اس اخبار کوپسندیدگی کی نظر سے دیکھاجاتا ہے۔ علاّمہ صاحب ۲۵؍جولائی۲۰۰۰ء کو امریکہ پہنچے اور ۱۵؍اگست ۲۰۰۰ء کو واپس لندن آگئے۔ لندن میں علاّمہ صاحب نے مزید پانچ روز قیام کیا ۔ان پانچ دنوں میں بھی علاّمہ صاحب کئی مقامات پرگئے ادبی محفلوں اور تقریبات میں شرکت فرمائی۔ لندن میں ادارۂ کاروانِ اردو نے علی سردار جعفری مرحوم کی یاد میں ایک تعزیتی ادبی نشست کااہتمام کیا تھا۔ اس تقریب میں لندن کے شعراء میںاطہرراز ؔاور ڈاکٹر غفار عزم ،ؔیورپین اُردو رائٹرس سوسائٹی کے صابرارشاد عثمانی، ڈائریکڑ اُردو مرکزلندن کے فاروق حیدر،صدر ادارۂ کاروان اُردو لندن کے سیّد مسعود الحسن، محسنہ فاؤنڈیشن لندن کے ظفر عباس نقوی نے شرکت فرمائی۔جبکہ مہمانِ خصوصی ڈاکٹر فاروق حسن (بارایٹ لاء) امریکہ سے تشریف لائے تھے۔اس جلسے کی صدارت علاّمہ صاحب نے فرمائی۔ علاّمہ نے آخر میں اپنے صدارتی خطاب میں علی سردار جعفری کی شاعری نثرنگاری اور دیگر ادبی مشغولیات پرگفتگو فرمائی۔ دوسری تقریب کا اہتمام مولانا سیّد محمدرضا شَبرنے کیا تھا۔ اس تقریب میں بھی علاّمہ صاحب نے صدارت فرمائی اُردو اور میرانیسؔ پر گفتگو ہوئی۔ یورپ اور امریکہ کے اس سفر اور قیام میں علاّمہ صاحب کی ہرجگہ پذیرائی ہوئی۔ یہ دورہ ادبی ،علمی،دینی،مذہبی اور معلوماتی حیثیت سے ہمیشہ یادگار رہے گا۔ علاّمہ صاحب اپنی علمیت اور محبت کے ایسے اَنمٹ نقوش وہاں چھوڑ کر آئے ہیں کہ اب تک وہاں کے لوگوں کے دلوں پرنقش ہیں۔ ۲۱؍جولائی ۲۰۰۱ء کو علاّمہ صاحب شام کی زیارت کی غرض سے مُلک ِ شام روانہ ہوئے۔ سب سے پہلے شریکتہ الحسین ؑ شہزادی زینبؑ کے روضہ ٔ مقدس پر حاضری دی۔ جتنے روز بھی شام میں رہے بلاناغہ دربارِ ثانیِ ٔ زہراؐ پر سجدہ سلام کرنے جاتے رہے۔ علاّمہ صاحب اپنے سفرنامے میں تحریر فرماتے ہیں کہ مُلک ِ شام کی تاریخ ُپراسرار ہے اور تاریخی اعتبار سے یہ مُلک ایک قدیم تہذیبی اور ثقافتی مرکز ہے اپنی زرخیزی کے باعث یہ سرزمین عرب لٹیروںاور بدووُں کے لیئے ہمیشہ کشش کا باعث رہی دوسری صدی (ق،م) کے آغاز میں ہی اِن عرب بدووں نے حمص، تدمر اور الحجرمیں اپنی ریاستیں قائم کرلی تھیں۔رسولِؐخدا کے پردادا جناب ہاشم نے عربوں میں تجارت کو رواج دیا۔اس بات کا ذکر قرآن ِکریم نے سورۂ قریش میں کیا ہے کہ جناب ہاشم تجارت کا قافلہ لے کر موسمِ سرما میں یمن کے لیئے اور موسمِ گرما میں شام میں تجارت کے لیئے جاتے تھے۔جب حضرت ِ ہاشم عرب کے سردار ہوئے تو اُن کے لے پالک بھتیجے اُمیّہ کو حضرت ِ ہاشم کی شہرت و ناموری پر حسد دامن گیرہوا اُمیّہ نے چاہا کہ قریش میں اس کی بھی عزت و توقیر ہو لیکن ہاشم کی جودوسخا،حِلم و مَروّت،وجاہت و شرافت، سیادت وشوکت شجاعت و مدبرانہ صلاحیتوں کے باعث اُن کو جو عزّت و شہرت حاصل تھی وہ کوشش کے باوجود اُمیہ کو حاصل نہ ہوسکی۔ عربوں نے ہاشم کے مقابلے میں اُمیہ کو دس برس کے لیئے مکے سے نکال دیا۔ اُمیہ جِلاوطن ہوکر مُلک ِ شام چلاگیا۔اُمیہ کا اخراج ہی وہ بِنا تھی جس کے باعث بنی اُمیہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے اولاد ِہاشم کے دشمن ہوگئے۔اور عربوں کی قدیم روایت کے مطابق ہرزمانہ اور ہر دور میں اپنے دادا اُمیہ کے اخراج کا بدلہ لینے کی کوشش کرتے رہے۔ اُمیہ نے مُلک ِ شام میں اپنی جڑیں مضبوط کیں تاکہ عرب سے نکلنے پراس کی اولاد یہاں مرکز بناکر عربوں سے اپنی توہین کابدلہ لے سکے۔ حضرت ہاشم کی دوسری شادی مدینے کے ایک سردار عمروبن زید کی بیٹی سلمیٰ خاتون سے ہوئی اس عقد کے بعدحضرت ِ ہاشم تجارت کی غرض سے شام کے سفر پر روانہ ہوئے۔ راستے میں غزہ کے مقام پر انتقال کرگئے اور وہیں دفن ہوئے ۔سلمیٰ خاتون کے یہاں ہاشم کے فرزند حضرت عبدالمطلب کی ولادت ہوئی جو حضرت ِ رسول ِؐخدا کے دادا ہیں۔ حضرت ہاشم کے بعد اُن کے بیٹے عبدالمطلبؑ اور پوتے حضرت ابوطالب ؑ نے اُس تجارت کو فروغ دیا جس کی بنیاد حضرت ِ ہاشم نے غیرملکوں میں رکھی تھی ۔حضرت ِ رسولِؐ خدا بھی بغرض تجارت پچیس برس کی عمر میں حضرت ِ خدیجہ ؑ کامالِ تجارت لے کر شام گئے اور کامیاب واپس آئے جس کے بعد آپ ؐکی شادی حضرت خدیجہ ؑکے ساتھ ہوگئی اور پھر اسلام کا آغاز ہوگیا۔ شام اور اردن کی سرحد پر ’’سرائے مزور‘‘ کے مقام پر حضرت ِ جعفر طیار ؑ کا روضہ مبارک ہے جو یہاں جنگ ِ موتہ میں ۸؍ہجری کو شہید ہوئے تھے۔ جنگ ِموتہ کے بعد رسولؐ اللہ اپنے آخری ایام میں ایک لشکر اُسامہ کی سرگردگی میں شام بھیجناچاہتے تھے اور حضرت ِ علیؑ کی جانشینی کو عملی شکل دینا چاہتے تھے اگرتمام مسلمان رسولؐ اللہ کی دور اندیشی کو سمجھ جاتے اور نادانی نہ کرتے تو آج اسلام اپنی صحیح شکل میں موجود ہوتا۔ لشکر واپس آگیا اور جوہواسوہوا۔سقیفائی اسلام بعد میں دُنیا میں رائج ہوگیا اور اس کا انجام دربارِ یزید کی شکل میں دنیا نے دیکھ لیا۔ بنی اُمیّہ کو مُلک ِ شام سے چونکہ بہت دلچسپی تھی۔ ۱۸؍ہجری میں حضر ت عمر نے بنی اُمیہ کو خوش کرنے کے لیئے شام کا گورنر معاویہ ابنِ ابی سفیان کو بنادیا۔حضرت عثمان نے اپنے عہد میں معاویہ کو پورے مُلک ِ شام کا حاکم مقرر کردیا۔ حضرت علی ؑ کے دورِ خلافت میں معاویہ نے حضرت ِعلی ؑ کے خلاف عُلمِ بغاوت بلند کردیااور صفیّن کے میدان میں ایک طویل جنگ ہوئی۔ علاّمہ صاحب نے صفیّن کے مقام پر شہدائے صفّین کی قبروں کی زیارت کاشرف حاصل کیا۔فرات کے پَل سے ہی تین روضوں کے گنبد نظرآجاتے ہیں۔ یہ روضے ایک دوسرے سے ملحق ہیں پہلی قبر حضرتِ عمارِ ؑ یاسر کی، دوسری قبر حضرت ِاویس قرنی اور تیسری قبر حضرت ِ خزیمہ بن ثابت انصاری کی ہے۔ قبروںسے بے پناہ خوشبو آرہی تھی۔یہ تینوں شہدائے صفّین ہیں۔ حضرتِ عمارِ یاسر ؑکے قتل پر حضرت علی ؑ نے اعلان کیا ’’عمار کا قتل کرنے والا اور ان کو براکہنے والا اور ان کے ہتھیار لوٹنے والا جہنم میں جائے گا‘‘ جناب ِ عمارِ یاسر ؑ کی لاش اُٹھاکر مولاعلی ؑ دریائے فرات کے قریب لائے اُنھیں غُسل دیا اور نمازِ جنازہ پڑھی اور اس مقام پر دفن کردیا۔ علاّمہ صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دن کوفے کے کسی دیہات میں دریائے فرات کے کنارے بیٹھے ہوئے اویس قرنی وضوکررہے تھے کہ اچانک طبل کی آواز کان میں آئی۔ لوگوں سے پوچھا یہ کسی آواز ہے۔ لوگوں نے جواب دیا کہ حضرت علی کی فوج صفّین کے میدان میں معاویہ سے لڑنے جارہی ہے اویس قرنی نے کہا’’کوئی عبادت میرے نزدیک متابعت ِ علی مرتضیٰ سے افضل نہیں ہے ‘‘یہ کہہ کر اُسی طرف دوڑے جب خدمت ِ امیرالمومنین ؑ میں حاضر ہوئے تو سلام کے بعد عرض کیا یا امیرالمومنین ؑ اور اے خلیفہ ٔ ارض ہاتھ بڑھایئیکہ میں بیعت تو کرلوں،حضرت علی ؑنے فرمایا تم کس چیز پر بیعت کروگے؟عرض کی اس وعدے پر کہ آپ کی نصرت ومددگاری میں اپنے کو چھوڑدوں اور اپنا سر آپ پر نثارکردوں،یہ ہیں اویس قرنی ،عاشقِ رسول ؐ اور عاشقِ علی ؑ کی قبر،اویس قرنی کے قاتل معاویہ کا نام و نشان بھی اس مُلک ِ شام میں نہیں۔ جب حضرت ِ عمارِ یاسر ؑ نے شامی فوج کے ہاتھ شہادت پائی تو حضرت ِ خزیمہ بن ثابت کو جوش آگیا اور شمشیر بدست رجز پڑھتے ہوئے دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔ دیرتک نہایت شجاعت سے لڑتے ہوئے آگے بڑھے آخر شامیوں نے نرغے میں لے کر تیروں اور تلواروں کا مینہ برسادیا حضرت ِ علی ؑ کا یہ بہادر صحابی جام ِشہادت پی کر معبود ِ حقیقی کی بارگاہ میں پہنچا۔ صفّین کے میدان سے علاّمہ صاحب دریائے فرات پر بھی گئے۔ دس برس پہلے جب علاّمہ صاحب کربلائے معلی کی زیارت کو گئے تھے تووہاں بھی دریائے فرات کے پانی کو قریب سے غور سے دیکھا اور اب مُلک ِ شام میں صفّین کے مقام پر ساحلِ فرات کو دیکھ رہے تھے کیوں دیکھ رہے تھے ؟اس لیئے دیکھ رہے تھے کہ :- جو مہرِ فاطمہؐ میں ہے وہ یہ فرات ہے گرمی میں ُقرب نہر کا آبِ حیات ہے یہاں سے حجربن عدی کے روضے کی زیارت کو ’’عذرا‘‘ کے مقام پر پہنچے جو دمشق سے تقریباً اڑتیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے روضہ زیادہ وسیع نہیں ہے لیکن ہے خوبصورت ۔روضے کے ساتھ مسجد بھی ہے اور ایک طویل قبرستان بھی۔ حجربن عدی کے ساتھ اُن کے انصار بھی روضے میں دفن ہیں۔ روضے کی ضریح چاندی کی ہے اور چاروں طرف قالین بچھے ہوئے ہیں ۔ علاّمہ صاحب حضرت ہابیل کی قبر کی زیارت کو بھی گئے۔ حضرت ِ ہابیل کی قبر روضۂ جناب ِ شہزادیٔ زینب ؑ سے تقریباً ستر کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ایک بلند پہاڑی پر یہ روضہ بنا ہوا ہے ۔یہاں سے اسرائیل اور لبنان کے بارڈر ملے ہوئے ہیں۔ جائے غیبت اصحاب ِ کہف روضۂ شہزادی زینب ؑسے تقریباً بیس کلومیٹر دور ایک بلند پہاڑی پر واقع ہے یہ غار اصحاب ِ کہف سے منسوب ہے۔ ایک ریسرچ اسکالر اور عام زائر میں یہی ایک فرق ہے کہ عام زائر تواپنی عقیدت و محبت کی بِنا پر تمام روضوں کی زیارت کرتا چلاجاتا ہے جبکہ ریسرچ اسکالر ان روضوں کے بارے میں اور اُس علاقے کے بارے میں مکمل معلومات رکھتاہے۔ قبرستان بابِ الصغیر ہی کو لے لیجئے جو مسجد اموی کے شمال میں دور تک پھیلا ہوا ہے۔ علاّمہ صاحب تحریر فرماتے ہیں اپنے سفرنامہ ٔ شام میں کہ اس قبرستان میں چھوٹے چھوٹے روضے بنے ہوئے ہیں ۔جن میں مندرجہ ذیل بزرگ ہستیوں کی قبریں یا شبیہ ِ قبور ہیں۔ ۱۔حضرت ِ اُم کلثومؑ۲۔حضرتِ سکینہؑ دُختر ِ امام حسین ؑ۳۔حضرت ِ میمونہ دُختر ِامام حسن ؑ مجتبیٰ ۴۔حضرت ِ حمیدہؑ دُختر مسلم ابنِ عقیل۵۔حضرت اُم سلمیٰؑ۶۔حضرت اُمِ حبیبہ ۷بلال ِ حبشیؑ،۸۔عبداللہ ابن ِجعفرؑ۹۔حضرت عبداللہ ابنِ امام جعفر صادقؑ ۱۰حضرتِ فاطمہ صغراؑ دُخترِ امام حسین ؑ ،۱۱۔حضرت اسما بنت ِ عمیس۱۲۔حضرت فضہ ۱۳۔عبداللہ ابن مکتوم ۱۵۔جناب مقدادؑ۔ سلطنت ِ ترکیہ کے عہد خلافت میں یہ روضے تعمیر ہوئے ہیں۔بعض روضوں پر بادشاہوں کے نام بھی لکھے ہیں۔ ترکی کے بادشاہوں کو عظیم ہستیوں کی یادگاروں کو محفوظ کرنے کا بے انتہاشوق تھا مکے ،مدینے اور عراق کے شہروں میں ،شام کے شہروں میں اُنھوں نے روضے تعمیر کروائے اور قبروں پر ضریح رکھنے کا اہتمام کیا۔ظاہر ہے وہ علماء سے معلومات کرتے ہوں گے پھر اس عمارت کا سنگ ِ بنیاد رکھتے ہوں گے،وہ علماء جو محقق نہیں ہوتے وہ اپنی علمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشورہ دیتے ہیں۔ علاّمہ صاحب فرماتے ہیں کہ شام کے زندان میں ایک برس قید رہنے کے بعد جب اسیرانِ اہلِ بیت ؑ کا قافلہ مدینے واپس چلاگیا تو اب شام میں قبروں کا وجود کیسے ہوسکتا ہے۔جناب ِ سیّد سجاد ؑ کے ساتھ حضرت ِ زینب ؑ ،حضرت ِ اُم کلثوم ؑ ،حضرت ِ فضہ مدینے واپس آئیں۔صرف حضرت زینب ؑ دوبارہ شام گئی ہیں اس لیئے آپ کا روضہ مبارک وہاں ہے زیارت گاہِ عوام وخواص ہے۔ حضرت ِاُم کلثوم ؑ اور حضرت ِفضہ کی قبریں جنت البقیع مدینے میں ہیں۔ حضرت ِ اُم سلمیٰ زوجہ رسول اللہ واقعہ کربلا کے وقت پچانوے برس کی تھیں اور وہ کبھی مدینۃ النبی اکرم ؐ سے باہر نہیں نکلیں۔ اِسی طرح اُمِ حبیبہ زوجہ رسولؐ اللہ بھی مدینے سے باہر نہیں نکلیں، حضرت عائشہ نے جنگ ِ جمل میں چلنے کے لیئے حضرت ِ اُم سلمیٰ سے کہا کہ میرے ساتھ چلو توآپ نے فرمایا کہ قرآن اور رسولؐ اللہ نے ازواج کو گھروں سے نکلنے کے لیئے منع کیا ہے ہم مدینے سے باہر نہیں جاسکتے۔ ایسی صورت میں امام حسین ؑ بھی حضرت ِ اُم سلمیٰ کو کربلا نہیں لے گئے احترامِ زوجہ رسولؐ آپ کی نگاہ میں تھا۔ حضرت اُمِ سلمیٰ اور حضرت ِ اُم حبیبہ ؑ کی وفات مدینے میں ہوئی اور جنت البقیع میں ان کی قبریں ہیں۔ حضرت فاطمہ صغراؑ بھی کربلا کے سفر میں امام حسین ؑ کے ساتھ نہیں تھیں آپ کی وفات بھی مدینے میں ہوئی اور جنت البقیع میں دفن ہیں۔ حضرت اسماء بنت ِ عمیس ؑ (زوجہ حضرت ِ جعفر طیار ؑ ) واقعہ کربلا سے بہت پہلے وفات پاچکی تھیں ان کی وفات بھی مدینے میں ہوئی۔ حضرت مقداد نے موضع جرف میں انتقال کیا جو مدینہ منورہ سے ایک فرسخ کے فاصلے پر واقع ہے۔ میت جنت البقیع میں سپردِ خاک کی گئی۔ بھلا شام کے شہر دمشق میں ان کی قبر کہاں سے آگئی ؟ حضرت بلال ِ حبشی ؑ کی قبرلبنان میں ہے۔ خیال یہ ہے کہ یہ قبریں عقیدتاً بنائی گئی ہیں اور یہ اصل قبروں کی شبیہ ہیں زیارت کرنے میں ثواب ہے۔ اور سعودی حکومت کے لیئے ایک علمی درس ہے کہ اگر مدینے میں ان ہستیوں کے روضے محفوظ رہ جاتے تو اس دور دراز مُلک میں یہ یادگاریں کیوں قائم کی جاتیں۔ علاّمہ صاحب یہاں کی زیارات کے بعد حلب کی طرف روانہ ہوئے شہرِ حلب میں علاّمہ صاحب زیارت کے لیئے قریب ِ شام پہنچے فرماتے ہیں کہ ڈرائیور سب سے پہلے حضرت ِ زکریا ؑ کی قبر پر لے گیاایک قدیم وسیع وعریض مسجد ہے جو کبھی گرجارہاہوگا۔ اندرمحراب سے قریب ضریح میں حضرت زکریا ؑ کی قبر تھی۔ مسجد کے چاروں طرف خوشمنا باغات ہیں یہاں زیارات کے لیئے عیسائی بھی خاصی تعداد میں نظر آتے ہیں۔ حضرت زکریا ؑ کے روضے سے زیارت کرکے کافی فاصلے پر حضرت محسن ؑ کے روضے پر پہنچے۔ جبلِ جوشن حلب کا ایک بلند پہاڑ ہے اوپر جانے کے لیئے تقریباً پچھتر زینے ہیں بڑے بڑے پتھروں سے یہ عمارت تعمیر ہوئی ہے پہاڑ کے مغربی جانب ایک قبرستان ہے جس میں صاحب ِ مناقب ابنِ شہر آشوب اور دیگر علماء کی قبر یں ہیں۔ پہلے اس مقام پر تانبے کی کان تھی۔ اہل ِبیت ؑ کے قیدی بچوں اور عورتوں نے کان کے مالکوں سے پانی مانگا تو اُنھیں پانی دینے سے انکار کردیا اس کے بعد اس تانبے کی کان پر تباہی آئی اور سب برباد ہوگئے۔کوہِ جوشن پر ایک حجرے میں معصوم فرزند ِ امام حسینؑ جناب ِ محسن ؑ کی قبر ہے۔بادشاہ سیف الاولہ جب حلب پر حکمراں تھا اُس کو خواب میں بشارت ہوئی کہ اس قبر پر روضہ تعمیر کرے اس نے یہاں یہ روضہ تعمیرکروایا حلب میں دوسری اہم زیارت مقام ِ مسجد راس الحسین ؑہے جیسے ’’مشہد النقطہ ‘‘کے نام سے پکارتے ہیں۔مسجد میں ایک ضریح ہے جس کے اندر ایک پتھر رکھا ہے اس پتھر پر امام حسینؑ کا سرِ مبارک رکھا گیاتھا۔پتھر نے وہ خون جو امام حسین ؑ کے گلے سے بہہ رہاتھا اپنے اندر جذب کرلیا اور آج تک محفوظ ہے لگتا ہے کہ تازہ سرخ خون اُبل رہا ہے دربارِ یزید اور شام کا بازار ان دروازوں کی تفصیل دربار کا حال یزید معلون کا سات دروازوں والا عالیشان محل اور باقی تمام تفصیلات آپ علاّمہ صاحب کے سفرنامے میں پڑہیئے گا۔ اور علاّمہ صاحب اپنی فیملی کے ہمراہ واپس …………۲۰۰۱ء کو شام کی زیارات کرکے کراچی آگئے۔ ززز بچپن:- کچھ باتیں اور یادیں علاّمہ صاحب کی اپنی زبانی سنیئے :- فرماتے ہیں کہ ہمیں بچپن میں چڑیا پکڑنے کا بہت شوق تھا اُس زمانے میں باغات سے پھل ٹوکروں میں آیاکرتے تھے ، وہ ٹوکرے ہم چڑیا پکڑنے کے کام میں لاتے، ہوتا یہ تھا کہ ہم ایک لکڑی میں ایک لمبی سی ڈوری باندھ کر ٹوکرے کو ترچھاکرکے اُس پر ٹکادیتے اور اس کا سرا ہاتھ میں لے کر دور بیٹھ جاتے تاکہ چڑیاکی نظر ہم پر نہ پڑے ،ٹوکرے کے نیچے دانہ ڈال دیاکرتے تھے تاکہ اُنھیں نظر آئے کہ یہاں دانہ پڑا ہے، جیسے ہی چڑیاں دانہ دیکھ کر ٹوکرے کے نیچے آئیں ہم نے ڈور کھینچی ایک آدھ ٹوکرے کے اندر اور باقی ُپھرہوجاتیں۔ اب اُس کو پکڑ کر حلال کیاجاتا تو اَ ّ موجان (والد صاحب) سے کہتے وہ حلال کرتے اور اُس کے بعد وہ پکائی جاتی۔ایک ایک چڑا پھنستا تھا جب وہ ُبھن جاتا تو پھر دوسرے کی باری میں بیٹھ جاتے ،کبھی کمرہ بند کرکے گرمیوں میں جیسے ہی چڑا آیا اور ہم نے دروازہ بند کیا دادی ہماری چِلاتی تھیں۔ارے گرمی ہے……پیاسے ہیں پرندے…… نہ کروپریشان گرمی بہت ہے … … وہ سائے کی وجہ سے اندر آئے ہیں پرندے… دھوپ کا زمانہ ہے۔نہ پریشان کرو…… دعا لو پرندوں کی۔مگر ہم اپنی دُھن میں مگن رہتے تھے بس تولیہ پکڑا ہُش… ہُش…ہُش۔ ۲۹؍ربیع الاوّل کو ہم پیدا ہوئے آٹھ بجے شب۔یعنی چاند اب ہوگا ِتیس ربیع الاوّ ل کا یا پھر یکم ربیع الثانی کا۔ تو خالہ نے ہماری شعرلکھ کر بھیجا۔ مُثردَہِ تولید سُن کے غنچۂ دِل کھِل گیا چاند کی رویت سے پہلے ماہِ کامل مل گیا ہماری خالہ سیدہ مہدیہ بیگم نقوی ہمارے بھائی بہنوں کی پیدائش پر نظم کہہ کے بھیجتی تھیں لیکن ہماری پیدائش پر صرف ایک شعر لکھا۔ نظم نہیں بھیجی اور سب کے لیئے نظم بھیجی۔ یہ نظم چھوٹے بھائی یعنی ظفر عباس کے والد تنویر جو اس وقت امریکہ میں ہیں جب پیدا ہوئے تو خالہ نے لکھ کر بھیجی۔ تیسری بار بہار آئی مبارک ہوئے لال منّا سا یہ اے بھائی مبارک ہوئے پیاری آپا کو بھی دلدار مبارک ہوئے پیارے جھمّن کو بھی حقدار مبارک ہوئے میرے جمّا کو مبارک ہو یہ چھوٹا سا اخی تینوں بچّوں کو خدا آپ کو دکھلائے خوشی ہمشیرہ عزیز مہدیہ بیگم نقوی سلمہا نے ہدیہ مبارک باد پیش کیا۔ میری عرفیت تھی جمَّا۔بڑے بھائی پہ یہ نظم کہی تھی ۔ اُس کے بعد شہناز پر، شہناز پر یہ نظم کہی:- ہاں چشمِ تصوّر سے جو مہدیہؔ نے دیکھا اک دختِ حسیں آئی نظر منھ سے یہ نکلا یہ پھول سی بچی ہو مبارک تمہیں آپا نام اس کا بہت خوب نقیہؔ نے ہے رکھا شہنازؔ جو ہے نام مجھے دل سے پسند ہے کیوں ہو نہ پسدن، پیاری نقیہؔ کی پسند ہے خوشی سے جھوم جھوم کر صبا نے دی ہے یہ خبر ہمارے بھائی جان کو ملی ہے رشک خوش سیئر کِھلائی تین پھول پر کلی خدا نے خوب تر اُٹھا کے ہاتھ مہدیہؔ خدا سے یوں دعا تو کر چمن رہے ہرا بھرا ہمارے بھائی جان کا خزاں نہ آئے یا خدا کِھلا رہے چمن صدا اُس کے بعد پروین کے لیئے کہا تھا وہ ہماری ڈائری میں لکھی تھی پانی ڈائری پر گرگیا تھا، اُس کا ایک شعر یہ تھا:- چٹک رہی ہیں جو کلیاں ہمارے گلشن میں ہوں مستفیض ہم ان سے کھلیں جو دامن میں دیکھیئے گھر میں اصل میں جو کردار ہوتے ہیں نا تو اُن کے گرد پوری زندگی ہوتی ہے بھائی بہن اور ماں باپ ۔تویہ لکھنؤ میں تو اتنی ہی فیملی تھی ہماری ایک ہی گھر ۔لیکن جب چھُٹیوںمیںدادا کے گھر جاتے تو پھر ماشاء اللہ پوراخاندان نظر آتا تھا کہ بھئی اتنے لوگ ہیں ہماری فیملی میں۔ اور کتنا آناجانا اور ملنا، پھر یہ کہ وہ دیہات تھا مصطفیٰ آباد اور منظر بدل جاتاتھا شہر کے مقابلے میں تو جو چیزیں شہر میں تھیں وہ دیہات میں نہیں تھیں جو دیہات میں تھیں وہ شہر میں نہ تھیں۔ بس یہ پتہ تھا کہ ُچھٹیاں جو اسکول کی ہوتی ہیں تو اُس میں ہم لوگ وہاں جائیںگے۔وہاں آم بہت ہیں گرمیوں کا زمانہ ہوتاتھا۔کبھی کبھی سردیوں میں بھی جاتے تھے اکثر ایسا ہوتا کہ جیسے محرّم اگر سردیوں میں پڑگیا تو محرّم کے لیئے چلے جاتے سب لوگ زیادہ تر محرّم کرنے وہاں چلے جاتے تھے۔ گھر کا ماحول:۔ پڑھنے لکھنے کا سب کو شوق تھا اور اُس میں کوشش یہی تھی کہ سب کو پڑھایا جائے بچوں کو، والدہ بھی چونکہ ہماری پڑھی لکھی تھیں وہی لے کے بیٹھتی تھیں ہم کو، والد صاحب میتھ میٹکس پڑھاتے تھے حساب سمجھاتے تھے اُن کا حساب بہت اچھا تھا کتاب آتی تھی اُس زمانے میں کوئی دو سو صفحے کی اَس کا نام تھا چکرورتی۔ چکرورتی بہت بڑا گزرا ہے ماہرِ ارتھ میٹک کا، ارتھ میٹک ،الجبرا،جیومیڑی،تینوں چیزیں تھیں اُس کتاب میں اُردو میں تھی اُس کتاب سے سوال لکھ کر دے دیئے جاتے کہ ان کو حل کرو؟ پہلے تو سارا کام تختی پر ہوتا تھا۔ تختی کے لیئے ہم بہانے لگاتے تھے۔چونکہ تختی جو ہے وہ ابھی لکھی رکھی ہے کل کی، تواُس کو دھوئیں گے تو پہلے تختی دھوئی جاتی ، پھر اُس کے اُوپر ملتانی مٹی گیلی کرکے پوتی جاتی پھروہ دھوپ میں ُسکھائی جاتی ۔اب وہ سوکھ گئی اب لے کے بیٹھے دوات قلم،بازار سے دوات کی روشنائی کے لیئے ٹکیہ ملتی تھی کالے رنگ کی دویا ایک پیسے کی دوملتی تھی۔ پھر وہ لائے اس میں پانی ڈالا، ُگڑ ڈالا پھر اُس میں تھوڑا سا کپڑا ڈالا تاکہ اُلٹ نہ جائے۔جب گرتی تھی تو زمین پرگری کپڑوں پر گری کئی کئی بار ایسا ہوتا تھا ،پھر قلم اُس میں ڈبو کر لکھتے تھے۔ دو قِسم کے قلم ہوتے تھے کلِک کے کہلاتے تھے اور سرکنڈے کے۔کلِک کا قلم بانس کی طرح کا ہو تا تھا اور سرکنڈے کا ذرا ہلکا ہوتاتھا۔ ہمارے لیئے قلم والد صاحب ہی بناتے تھے اور بہت اچھے بناتے تھے،اُس کے لیئے اُن کے پاس ایک چاقو بہت ہی عمدہ ،ہاتھی دانت کا اُس کا دستہ اور بڑا تیزہوتا تھا اکثر اُسے تیز کرتے تھے پھر اُس سے قلم تراشاجاتا تھا ،جب قلم تراش لیا اب اُس کو ترچھا کاٹاجاتا تھا پھر چاقو کی نوک سے قلم میں قط لگتا تھا تو بہت سے قلم بنا بنا کر ڈبے میں رکھ دیتے تھے، پھر قلم کو روشنائی میں ڈبوڈبو کر لکھنا شروع کیا، وہ مختلف تھا کہ بھئی ’’ا،ب‘‘ لکھنا ہے ۔ا،ب کے لیئے یہ تھا کہ پینسِل سے والدہ نشان لگادیتی تھیں۔تختی پر۔ ا،ب ،پ ،ت، کہ اس پرہاتھ پھیرنا ہوتا تھا اور پورے حروف ِ تہجی ا سے ی تک لکھے جاتے تھے اُس کے بعد ہندی لکھی جاتی تھی ’’آبا سا……… …… ‘‘ پھر انگریزی A.B.C اُس کی پریکٹس ہوتی تھی پھر اُس کے بعد وہ سوال جواب، سوال میں عمل ہوتا تھا جوڑنے کا اُس کے بعد گھٹانا،یعنی پہلے جوڑنا پھر گھٹانا اُس کے بعد ضرب اور پھر تقسیم،اچھا تختی لکھنے کی وجہ سے تحریر ذرا اچھی ہوگئی تھی تو جب کاغذ پر لکھا تو اُس پر بھی بہت مشق کی لکھنے کی، کوئی بھی چھوٹی سی کتاب لے لیتے تھے اور اُس کو لکھتے جاتے تھے بنابنا کے تاکہ لفظ اچھے لگیں ۔اگر تختی پر کوئی لفظ خراب کردیتے تو اُس کی مشق کیا کرتے کچھ دنوں ہندی اور اُردو کی ۔انگریزی کے لیئے پین سے باریک باریک جو وہ ایک Z زیڈ نب کہلاتی تھی اُس سے ،وہ باریک نب ہوتی تھی اُس سے انگریزی کی پریکٹس کرتے تھے۔ اسکول سویرے جانا ہوتا تھا ساڑے چھ سات بجے گھر سے نکلنا ہوتا تھا ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اسکول کے چپراسی ایک صاحب تھے کالا کوٹ پہنتے تھے سردیوں میں اور چَسٹر،چشمہ لگاتے تھے بوڑھے سے تھے وہ سارے بچوں کو جمع کرتے سب کو ساتھ لے کے اسکول پیدل ہی جاتے اور ُچھٹی کے بعد سب کو گھروں پر چھوڑنے بھی آتے۔ ابتدائی کلاس میں تو وہ صاحب آتے رہے لیجاتے رہے تیسری جماعت تک، پھر ہم جب اتنے بڑے ہوگئے کہ خود سے جانے لگے چوتھی پانچویں کلاس کے اسکول خود ہی جانے لگے۔ تنویر اور شہناز دونوں چھوٹے تھے جب انکا ایڈمیشن ہوگیا تو دونوں ساتھ ہی آتے تھے۔ہمارے محلہ وزیر گنج لکھنؤ سے اسکول کا فی دور تھا کم سے کم تین چار لمبی لمبی گلیاں اندر اندر شام کو ُچھٹی ہوتی تھی صبح جاتے تھے شام گھر واپس آتے تھے۔ وہاں گرمیوں کا حساب الگ تھا اور سردیوں کا الگ، سردیوں میں دیرسے جاتے تھے ساڑے آٹھ بجے اسکول شروع ہوتا تھا ڈھائی تین بجے شاید ُچھٹی ہوجاتی تھی پھر گھر آکے کھانا کھا کر تھوڑا بہت کھیل کود۔رات میں پھر پڑھنے کے لیئے بٹھایا جاتا تھا۔ لالٹینیں جلتی تھیں۔ لالٹینیں خودہی اپنی پڑھائی کی صاف کرنا ہوتی تھیں اُس کی چمنی شیشے کی ایک دن میں خراب ہوجاتی تھی جس کو کپڑے سے صاف کیاجاتا تھا ۔ مٹی کا تیل راشن کارڈ سے ملتا تھا اُس کے لیئے بھی لائن لگتی تھی بوتل بھر کے مٹی کا تیل لایا جاتا تھا لالٹین میں ڈالا جاتا تھا اُس کے بعد وہ روشن کی جاتی۔ایک لالٹین تو پورے گھر کے لیے ہوتی تھی اور ایک پڑھائی کیلئے۔اُس کے لیئے ایک تِپائی (میز) لمبی سی رکھی ہوتی تھی۔ پلنگ پربیٹھ کر پڑھائی ہوتی تھی اور سامنے تِپائی پر لالٹین رکھی ہو تی تھی ۔ایک ڈیڑھ گھنٹے پڑھائی ہوتی تھی پھر رات کاکھانا۔ رات کاکھانا کبھی پلنگ پہ ہوا کبھی تخت پہ ہوا کبھی فرش پہ ہوا، گرمیوں میں کھانا صحن میں کھاتے تھے اور سردیوں میں کمرے میں پھر کھانا کھا کے اگر سردیاں ہیں تو جلدی سے لحاف میں ُگھس جاتے تھے۔ پھر صبح اُٹھائے جاتے تھے پھر اُسی طرح دن کا آغاز اور اسکول جانے کی تیاری۔ ہمارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر ذرا چوڑے سے تھے تندرست، بہت سے ٹیچر دُبلے پَتلے تھے ایک ٹیچر شیروانی پہنتے تھے ایک پتلون شرٹ پہن کر آتے تھے۔ ایک اُردو ہندی پڑھاتے تھے ایک انگریزی ،ایک تھے مولانا صاحب جو قرآن اور دینیات پڑھاتے تھے۔ سب ہم سے محبت کرتے تھے۔ ہم بھی اپنے استاتذہ کا ادب و احترام کرتے ۔جب بھی میں گیا ہوں لکھنؤ تواُن استاتذہ سے ضرور ملا ہوں ،ہیڈ ماسٹر صاحب سے بھی ایک بار ملاقات ہوئی ہے جب سن ِچھیتّر میں گیا تھا تو اُن کی دوکان تھی اخبارات ،رسالے اور کتابوں کی تووہ وہاں بیٹھے ہوئے تھے بڑے خوش ہوئے وہی گفتگو وہی لہجہ لگتا تھا کہ ابھی ہم اسکول میں ہیں بچپن کا سارا منظر سامنے تھا آنکھوں کے۔ لکھنؤ ایک بہت ہی ثقافتی اور تہذیبی شہر تھا۔ سارے کا سارا تہذیبی ماحول تھا جس گھر میں بھی جاو علم وادب اور ثقافت کا نمونہ، تواب سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ وہ ایک تہذیب تھی۔ ظاہرہے کہ اس وقت تو اتنی سمجھ نہیں تھی کہ اس کو کیا کہتے ہیں ، ثقافت کیا ہوتی ہے یہ اب ہم بیان کررہے ہیں کہ وہ کھانے پینے میں رکھ رکھاؤ،کھانے کا اہتمام،رہن سہن، بڑی بڑی کوٹھیاں بڑے بڑے صحن، خوبصورت مکانات تہذیبی لوگ وہ سب بیان کرنے کے لیئے وقت چاہیئے اچھے وقتوں کو،لیکن بہرحال ایک افادیت تھی اُس شہر کی عزاداری کا شہر تھا مجلس ماتم آنکھ کھول کے بچپن سے وہ چیزیں دیکھیں مجالس کی تہذیب، زنانی مجالس میں بھی ہم جاتے تھے بچپن میں مردانی مجالس میں والدصاحب کے ساتھ خواتین کی مجالس میں والدہ کے ساتھ، کم سے کم چار پانچ سا ل کے سِن تک تو گئے ہی ہیں۔ بڑے بڑے امام باڑے اور محل سب یادہیں ۔ساری چیزیں بیان کی جائیں تو پھر پوری منظرنگاری آنکھوں کے سامنے آجائے گی اور ایک پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ بہرحال چونکہ والدہ مجلس پڑھتی تھیں اور وہ نوحے بھی کہتی تھیں منقبت بھی کہتی تھیں۔ اُن کو کہتے بھی دیکھتے اُنھیں پڑھتے ہوئے بھی دیکھتے تو درس،تہذیب، مجلس اور ذکرِ آلِ محمد ؐ یہ سب کچھ تو جیسے بچپن سے بالکل لگتا ہے کہ ہم اِسی میں پیدا ہوئے ہیں سب کچھ تو یہی ہے۔ اب یہ کہ وہ پورا سال جس طرح گزرتا تھا کہ بھئی موسم ہے ،موسم کے ساتھ پورایک ماحول تھا پھر وہاں عید ،بقرعید،رمضان اس طرح سال گزرتے تھے، ہر موسم کے اعتبار سے تبدیلیاں نظر آتی تھیں کہ جواَب سمجھ میں آتا ہے کہ وہ ایک پورا سسٹم تھا کہ سردیاں آرہی ہیں ،سردیاں آنے والی ہیں، گلابی جاڑے شروع ہوئے تو اب لباس بھی تبدیل ہورہے ہیں ،نئے اور گرم کپڑوں کا اہتمام سب سے زیادہ تیاری تو لحافوں کی ہوتی تھی، ُپرانے لحاف دُھلنے جاتے دُھل کے آتے تو اُن میں روئی بھری جاتی پھر نئے لحاف بنتے اگر کم ہیں تو نیا کپڑا خرید کے آیا سِل رہا ہے سِل کے لحاف تیار ہوئے پھر گھر کے سامنے چکی تھی آٹے کی اُنھوں نے روئی دُھونے کی مشین لگالی تھی اُس سے پہلے کا بچپن یاد ہے ہمیں ،بہت بچپن کا جب یہ میشن دُھنکنے کی ایجاد نہیں ہوئی تھی تو آدمی آتے تھے روئی دُھنکنے والے ایک کمان نما ایک طرح کی کمان ہوتی تھی اور اُس میں ڈوری بندھی ہوتی تھی اور جسے دُھنکی کہتے ہیں دُھونے کے ہاتھ میں ایک لکڑی ہوتی تھی ُتنیہ تو اس سے روئی دُھنکتا تھا آواز اُس کی بڑی اچھی ہوتی تھی۔ چلتے چلتے دُھنکی کی تان پہ رُک جاتے تھے ،بہترین آواز ہوتی تھی بڑا مزا آتا تھا اُس کو دیکھ کے سُن کے اور جب ہوا میں روئی اُڑتی تو بہت اچھا لگتا تھا وہ منظر۔ سردیوں کے کھانے الگ تھے گرمیوںکے الگ تھے۔برسات کے کھانے الگ تھے سردیوں میں دھوپ میں صحن میں بیٹھاجاتا تھا ، اور دھوپ کھائی جاتی تھی سردیوں میں اَمرود سردیوں کا پھل کہلاتا تھا بہترین آلٰہ آبادی آتے تھے ،اور سنگھاڑہ اُبالا جاتا تھا۔ گنا بھی خوب کھاتے تھے سردیوں میں صبح صبح اَوس کا بھیگا ہوا، گنے کارس نکال کے اُبالا بھی جاتا تھا اُس میں چاول پکتے تھے اُسے رساول بولتے تھے ۔رساول دودھ کے ساتھ کھائی جاتی تھی۔ رات بھر پکتی تھی یہ تھا سردیوں کا معاملہ۔ گرمیوں میں ہلکے کپڑے تیار ہو تے تھے گرم کپڑے رکھ دیئے جاتے اور کمروں سے پلنگ صحن میں آجاتے تھے چھڑکاؤ شروع ہوجاتا تھا، گرمی بڑھنے لگتی تھی ُلو چلنے لگتی تھی گرمیوں میں آم،جامن، فالسے،فالسوں کا شربت بنتا تھا۔ جامن کھائے جاتے تھے خربوزے اور تربوز، یہ گرمیوں میں سب چیزیں آتی تھیںاور برسات میں بیسن کی روٹی، پکوڑے اور لہسن ادرک کی چٹنی بڑا مزا آتا تھا برسات میں چٹ پٹے کھانا کھانے کا ۔بارشیں خوب ہوتی تھیں مکان کی تیاری شروع ہوجاتی بارش سے پہلے چھتوں کو چیک کیا جاتا تھا دیواریں اور چھتیں اگر کہیں سے کمزور ہیں تو مرمت کی جاتی تھی کہ چھت نہ ٹپکے، کوئی ٹوٹ پھوٹ نہ ہو یہ سب دلچسپیاں تھیں۔ یہ پھل یہ کھانے یہی سب دلچسپیاں تھیں دن بھر کی ،برسات میں خوب نہاتے تھے پہلی بارش کم از کم جب ہوتی تھی تو صحن میں خوب نہاتے تھے اور یوں بھی کہیں باہر نکلے کچھ لینے گئے تو بھیگ تو جاتے ہی تھے تو نہانا تو بارش میں پڑتا تھا اچھی لگتی تھی بارش، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہوتی تھی چونکہ سخت گرمی کے بعد بارش ہوتی تھی تو بہت اچھا لگتا تھا وزیر گنج میں پانی مقدار میں بہت تھا، کوئی کمی نہیں تھی۔ گھر گھر میں نلکے لگے تھے ۔بہت موٹی دھار آتی تھی نلکے میں بڑا اچھا پانی آتا تھا، فوارے کی طرح پانی نکلتا تھا ٹونٹی سے، ہمارے والد صاحب نلکوں کی ٹونٹیوں کا بڑا دھیان رکھتے تھے ۔اگر خراب ہوجاتی تو پیتل کی نئی ٹونٹیاں خرید کر لاتے، اُنھیں نفرت تھیں کہ نل میں پانی نہیں ہے یا ٹونٹی کے جوڑ سے پانی ٹپکے، یہ بات اُنھیںپسند نہیں تھی ٹونٹی کو وہ َکس کے بند کرتے تھے تاکہ پانی گرنے کی آواز ٹپ ،ٹپ،ٹپ نہ آئے، اِسی طرح لوٹے تو اُن کے منہ دھونے اور گھر کے سارے لوٹوں کی دیکھ بال کرتے تھے لوٹے کبھی ٹپکیں نہ، لوٹوں کے اندر قلعی رہے، لوٹے منجے ہوئے اور صاف ہوں، یہ سب باتوں کا ہمارے یہاں خیال رکھا جاتا تھا ۔والدہ میں بھی اور والد میں بھی صفائی بہت زیادہ تھی صفائی اور نفاست پسند تھے تو میرے مزاج میں بھی صفائی اور نفاست آئی ہے۔ بچے ُکو ڑا کرتے ہیں چیزیں بکھیرتے ہیں لیکن وہ مسلسل دیکھتی رہتی تھیں۔ ڈانٹتی رہتی تھیں یہ کیوں پھینکا یہ ُکوڑا کیوں کیا۔ تخت اُن کا صاف رہے اُس پر چاندنی سفید بالکل دودھ جیسی دُھلی ہوئی بچھی رہے گاؤکا غلاف سفید دُھلا ہوا ہر وقت رہے۔ پیروں کو چیک کرتی تھیں کہ ننگے پیر آکے کوئی تخت پہ نہ چڑھ جائے تو پیر کا نشان کبھی تخت یا فرش پر نہیں پڑتا تھا۔ ہمیشہ اس بات کی پابندی کی کہ کوئی پیر نہ رکھے۔ننگے پیر رہنے کے لیئے منع کیا کہ مٹی بھرے گی پیروں میں تو بستر اور فرش خراب ہوں گے۔ کاغذ کترنا، ُکوڑا کرنا سب اُنھیں پسند نہیں تھا ہم بہن بھائیوں کو ہمیشہ صاف ُستھرا رکھتی تھیں دُھلے اور پریس کئے کپڑے ہمارے لیئے تیار رہتے تھے۔ ہم لوگوں کے اچھے اچھے سویٹر بناتی تھیں ۔ہمارے گھر کی سلیقہ مندی کا چرچا بہت تھا۔ مصطفی آباد میں ہمارے دادا دادای تھے۔ وہاں گھر کے اندر رہنا پڑتا تھا باہر نہیں نکلنے دیا جاتا تھا۔ والد صاحب سب کو اپنے ساتھ لے جایاکرتے ۔دادا باہر بیٹھک میں بیٹھتے تھے ۔ہم بہت کم جاتے تھے ۔دادا جب بلواتے تو والدہ ُمنہ ہاتھ دُھلواکے کنگہا کرکے بھیجتی تھیں۔ باہر کرسیوں پر سب معززین بیٹھے ہوئے ہوتے تھے سب کو جاکر آداب کرنا اُن کی باتوں اور سوالوں کا جواب دینا سامنے کرسیوں پر دادا ہم کو بٹھالیتے تھے۔ گھر میں بے تکلفی یہ تھی کہ دادای بہت سیدھی تھیں بچوں کو بہت چاہتی تھیں اُنہی سے فرمائش ہوتی تھی اب یہ پکادیجئے اب یہ پکادیجئے۔ زیادہ تر فرمائش انڈے کے آملیٹ اور بیسن کی روٹی، ویسے وہ کھانے جو گھر میں پکتے تھے وہ عام طور سے پکتے ہی تھے لیکن کبھی کبھی کوئی فرمائش ہوتی تھی۔کچھ چیزیں ایسی تھیں کہ جو بہت مزے کی تھیں وہ ہمیشہ نہیں پکتی تھیں۔ مثلاً چنے کی دال کو ِبھگودیاجاتا پانی میں، جب وہ خوب نرم ہوجاتی تو اُس کو سِل کے اوپر پیساجاتا ،پیسنے کے بعد پھر وہ پھینٹی جاتی تھی اُس کے اندر نمک ، مرچ ،زیرہ باریک باریک پیاز دھنیہ کی پتی تھوڑی سی ادرک یہ سارا مسالہ اُس میں ملادیا جاتا۔ اُس کے بعد تیز آنچ میں پانی بھر کے ایک پتیلا چولھے پہ چڑھا دیا جاتاتھا اُس کے اوپر باریک کپڑا ململ کا باندھ دیا جاتا اب پانی جو اُبل رہا ہے اُس کی بھاپ کپڑے پر لگتی تھی پھر وہ چنے کی دال جو پھینٹی گئی ہے اُس کا تھوڑا تھوڑا پیسٹ پھُلکیوں کی طرح اس پر رکھ دیا جاتا تھا تو بھاپ میں وہ پکتی تھیں بھاپوریاں، گرم گرم اُترتی رہتی تھیں سب کھاتے رہتے تھے جو بچ جائیںاس کا سالن بنایا جاتا شوربے والا، کیا ذائقہ ہوتا تھا سب بڑے شوق سے کھاتے ،عام طور پر چاول کے ساتھ کھائی جاتی تھیں۔اِسی طرح ایک چیز بنتی تھیں جسے رکوش بولتے تھے۔ وہ معاش کی دال سے بنتی تھی۔ رکوش کے لیئے معاش کی دال کو بھی چنے کی دال کی طرح بھِگویا جاتا اور اُسی طرح مسالہ ڈال کر پیسٹ بنایا جاتا تھا لیکن بھاپوریوں کی طرح گول نہیں بلکہ چوڑی چوڑی پٹیاں بھاپ پر رکھی جاتی تھیں چوکور کرکے، جب ایک طرف بھاپ اچھی طرح لگ جاتی تو اُس کو پلٹ کر رکھ دیا جاتا جب وہ تیار ہوجاتیں اُن پیٹیوں کو ٹرے میں رکھ کر چاقو سے ترچھی ترچھی پھانکیں کاٹی جاتی تھیں۔وہ کوئی نہیں کھاتا تھا اُس کا صرف سالن بنتا تھا بڑا مزیدار ہوتا تھا۔ ایک کھویہ پٹی بھی ہوتی تھی ِتل کی پٹیاں جیسے ریوڑی ہوتی ہے۔ وہ کھوے کے ساتھ کھائی جاتی تھیں۔ برسات میں اَترسے کی گولیاں حلوائی بیچتے تھے۔ برسات ہی کا کھانا تھا ہمیشہ حلوائی کے یاں سے آتا تھا۔ فصل میں والد صاحب وافر مقدار میں چیزلے آتے یعنی جیسے گاجریں آئیں تو پندرہ بیس کلو بوری میں بھر کے گاجر آتا تھا۔وہ صحن میں ڈھیر کردیا جاتا پھر وہ دُھلتی تھیں بڑے سے ٹب میں پانی بھر کے اُس میں ڈال دی جاتیں اور خوب گاجروں کو صاف کیا جاتا یہاں تک کے وہ چمکنے لگتی تھیں اُن کو ٹب سے نکال کے سب لوگ بیٹھ کے کھاتے اب جتنا کھایا تو کھایااور دل بھر گیا توبیچ کا گودا نکال کر پھینک دیا اور پھانکیں بنالیں، گلابی والی گاجریں کالی کوئی نہیں کھاتا تھا یعنی گلابی گاجر سب کھاتے تھے۔ اب جب دل بھرگیا کھانے سے پھروہ کدوکش کی جاتی تھیں۔سب باری باری کدوکش کرتے اور پھر حلوہ بنتا ۔ اِسی طرح آم تھا جب کچے آم آتے تھے تو وہ بھی مَنوں کے حساب سے آتے اور آچار بنتا ڈھیرسارا،آچار چٹنی نورتن کے علاوہ آموں کی پھانکیں کاٹ کردھوپ میں کھٹائی کے لیئے سُکھائی جاتیں جو بھی پھل آتا تھا ڈھیروں آتا تھا اور جب آم پک کے آتے تھے تو اُس کا تو شمار ہی نہیں تھا اور اِسی طرح جب دادا کے یاں جاتے تو چونکہ باغات اپنے تھے تو بہت سارے کچے آم جب توڑے جاتے تھے تو اُس کی پال ڈال دی جاتی تھیں اندر کہیں کسی اسٹور میں مٹی میں چھپادیے جاتے تھے۔ آموں کے اوپر بھوسا ڈال کے اوپر سے مٹی کا لیپ کردیاجا تا۔ اُس کی معیاد ہوتی تھی پال کی، یہاں تو کاربیٹ سے آم پکائے جاتے ہیں ۔ دو تین من آم دبادیے جاتے تھے وہ گرمی سے پکتا تھا بھوسے اور مٹی کی،پھر کہیں سے وہ تھوڑا سا کھول لیا جاتا تھا اور ایک ایک آم کرکے نکال لیا جاتا پھروہ پانی میں ِبھگودیے جاتے ۔پورے دن پوری رات آم پانی میں تررہتے تھے پھر کھائے جاتے تھے تاکہ اس کی گرمی ختم ہو، آم کی گرمی سے بخار وغیرہ ہوجاتا ہے نا، اس لیئے پانی میں بھگوکرآم کھائے جاتے تھے۔ وہاں کے پرندے،درخت،پیڑ،کھیت،باغات،تالاب سب یاد آتے ہیں جب اسٹیشن سے اُترتے تھے تو آم پیڑوں میں لگے ہوتے تھے ہم اُنھیں دیکھتے جاتے تھے اور سوچتے کہ بھئی کتنا نیچا پیڑہے کہ اس سے ہم کتنے آم توڑ سکتے ہیں۔ ایک بار ایسا ہوا بھی کہ گاؤں میں تو خیر دُور دُور سناٹا رہتا تھا گرمیوں میں آدمی نظر بھی نہیں آتا تھا ۔کبھی کبھار کنویں پہ کوئی آدمی اگر بِٹھاسینچائی کررہا ہے پانی نکال رہا ہے تو نظر آجاتا کہ دو بیل پانی کھینچ رہے ہیں ورنہ سناٹا،باغوں میں کوئی پہرا وغیرہ بھی نہیں ہوتا تھا چھوٹی چھوٹی دیواریں ہوتی تھیںباغ میں جانے کے لیئے۔ تو وہ ایک باغ ہمیں بڑا اچھا لگا اسٹیشن سے راستے میں کہ یہاں آئیں گے اور بڑے بڑے آم توڑیں گے۔ پیڑ پر چڑھنے کا بہت شوق تھا ۔لکھنؤ میں بھی پیڑ اگر ملتا تھا تو اُس پر پریکٹس کے لیئے چڑھتے تھے ۔ اُونچے پیڑ پر اور مصطفی آباد میں بھی۔ پیڑ پر چڑھ کے پھل توڑنا ہمیں بہت اچھا لگتاتھا۔ تو ایک دن تیز گرمی تھی ُلوچل رہی تھی اور ہم چھپ کے گھر سے آم توڑنے چلے آم توڑ بھی لائے، آم لٹکے ہوئے تھے پیڑ میں اسٹیشن سے اُترے اور باغ میں پہنچے پیڑ پر چڑھے اور آم توڑلیئے، گھر لے آئے اور آتے ہی اتنا تیز بخار چڑھا کہ ہوش نہ رہا ُلولگ گئی تھی، دادی نے ہمارے پیروں کے تلووں پر دوپٹہ سے رگڑنا شروع کیا جھانواں کیا، ہم نے بتایا کہ ہم تو گئے تھے باغ میں آم تورنے کیلئے، دادی نے کہا کہ کوئی لگ گیا ہے تمہارے پیچھے دوپہر کو پیڑوں پر بھوت ہوتے ہیں ۔وہ بھوت تمہارے اُوپر آگیا ہے ابھی نہیں جائے گا ایک آدھ روز ہی میں جائے گا، بہرحال وہ پیڑ پہ چڑھنے کی عادت نہیں گئی، جہاں پیڑ ملا چڑھتے ضرور تھے، اُونچے اُونچے پیڑوں پہ چڑھ جاتے ایک شاخ سے دوسری شاخ پہ جانے میں بڑا مزا آتاتھا اور پیڑ کے اوپر سے دور تک کا نظارہ ہمیں اچھا لگتا تھا ۔ سب لڑکے ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ ایک باغ ہمارے دادا کے گھر کے بالکل سامنے تھا وہ کسی ّبچو لالہ کا باغ تھا۔ بچے لالہ کے ُچرا ُچرا کے کروندے کھاتے تھے اس میں کروندے لگے تھے وہ کروندے توڑنے جاتے جیسے ہی پیڑ ہلاتے تو ّبچولالہ کو پتہ چل جاتا تھا وہ ہاتھ میں چھڑی لے کے جھپٹتے سب بچے وہاں سے بھاگتے تھے ۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ کھیتوں میں جاتے فصلیں دیکھتے کہ کیا بویا ہے کیا کیا لگا ہے یہی ایک تفریح تھی وہاں اور مٹی میںکھیلنا۔ چکنی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو میں خوب کھیلتے ڈھیروں مٹی جمع کرکے اُن کے گھر وندے بناتے جب گلی سے واپس آتے تو مٹی میں لت پت ہوتے دن میں کئی بار مٹی میں کھیلتے اور کئی بار نہاتے تھے گھرکا نوکر سوگھڑے پانی کے بھرتا تھا ۔اُسی میں نہانے کا پانی ہوتا تھا اور اُسی میں پینے کا، مٹی کے گھڑے ہوتے تھے چھوٹے بڑے روز بھرے جاتے تھے۔ چھ سات سال کیعمر تک تو کھیل کود خوب رہا اُس کے بعد لکھنے پڑھنے کا شوق بس یہ سمجھ لیجئے کہ سات سال کی عمر کے بعد لکھنا شروع کردیا تھا۔ پوچھ پوچھ کے گھر کی بڑُھیوں سے والدہ سے دادی سے والدہ کی خالہ کی ماں یعنی ہماری نانا کی بہن سب سے شجرے پوچھ پوچھ کے کاغذ پر نقش بنابنا کے لکھتے گئے یہ کون؟یہ کون؟رشہ داریاں پوچھتے ُفلاں سے کیا رشتہ داری ہے فُلاں سے کیا رشتہ داری ہے پھر ہمیں بتایا جاتا کہ اُن سے یہ رشتہ داری ہے ،اُن سے یہ رشتہ داری تو ہم نے ایک چارٹ بنالیا تھا اور سب کے نام لکھ لیئے تھے تو ہمیں سب کے نام یاد ہوگئے تھے کہ کس سے کیا رشتہ داری ہے،اُس وقت کا اب تک یاد ہے اس لیئے ہم سے لکھنو ٔ کا کوئی محلہ کوئی گلی کوئی شخص پوشیدہ نہیں سب کو جانتے ہیں ۔اس لیئے ہم نے سب کا شجرہ بنایا اور سب کے کوائف اکٹھا کرکے ریکارڈ کی صورت میں محفوظ کر لیا ہمارے پاس موجود ہے۔ ہمیں پہیلی ُبجھوانا اور بوجھنا بھی بہت اچھا لگتا تھا ۔جب کوئی بوجھ نہیں پاتا تو ہمیں بڑا مزا آتا تھا۔ اس لیئے پہیلیاں لکھنے کا بھی شوق تھا۔ علاّمہ صاحب نے اپنے بچپن کی ڈائری دکھائی جس میں علاّمہ کے بڑے بھائی ، والدہ صاحبہ اور علاّمہ صاحب کے بچپن کی تحریر موجود ہے۔ اُن تحریروں کا عکس حاضرِ خدمت ہے۔ یہہماری پہیلیوں کی ڈائر ی ہے جس میں ہم پہیلیاں لکھتے تھے کچھ والدہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں یہ اتنی ساری پہیلیاں ہمیں سب یاد ہیں، یہ بچپن میں ہم جب بہت چھوٹے تھے تو بڑے بھائی سے لکھوائی تھیں جواس وقت امریکہ میں مقیم ہیں اُن کی تحریر اچھی تھی یہ اُن کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں، اس پر لکھا ہے ۱۳؍رجب ،تیرہ رجب کو شروع ہوئی تھی یہ کتاب۔ اس کے بعد اس میں والد ہ نے لکھا، یہ والدہ کی تحریر ہے۔ یہ والدہ کے ہاتھ کی تحریر ہے اس کے بعد میری تحریر پھر اس ڈائری کو میں نے بھرا، اس میں بہت دن لگے کبھی موٹے قلم سے کبھی باریک قلم سے(علاّمہ صاحب کی تحریر) کچھ اور لوگوں کی رائٹنگ بھی ہے اس میں کسینہ کسی کے ہاتھ کی تحریر ہے ۔ ایک طرف بوجھ لکھی ہوئی ہے پہیلی ادھر لکھی ہوئی ہے۔ اس کی جلد بندی بھی ہم ہی نے کی ہے۔ ایک باپ کے سو بیٹے ایک میں لوٹے ایک میں پوٹے، سب کے پیٹ میں ایک ہی آنت ۔ اس کی بوجھ ہے’’ تسبیح‘‘۔ آئے سوداگر مول کر مَیں سونا دوں گی تول کر ۔ بوجھ ہے ’’زعفران‘‘۔ کالے شاہ کا کالا رنگ لمبی گردن ماتھا تنگ۔ بوجھ ہے ’’کوّا‘‘۔ یہ والدہ نے پہلی لکھی ہے فارسی کی۔ یک سوال از تو پرسم اے کلیم پُرہُنر،عجب مرغ دیدم ، نہ پائوں نہ پر، نہ ماں اُس کے سر پر نہ پشت ِ پدر، نہ دیدم کسے، نہ شنیدم کسے، ہمیشہ خواند پوست بر کسے۔ بوجھ ہے ’’فکر‘‘ دیکھیے کتنی اچھی فارسی کی پہیلی ہے۔ جفت از کبوتران ابلق، مانند ہوا جُدا جُدا معلق، پرند بہ چرخ می نمائیند، یک ساتھ از خانہ ہائے می آئیند۔ بوجھ ہے ’’نگاہ‘‘ اب دیکھیئے میرانیسؔ کے دادا میرحسن ؔ کی پہیلی ہے ۔ سرکٹےہوئے جواہر، پا کٹے شیریں غذا، اے حسنؔ وہ کون سا پھل جس کا ہے پھیکا مزا۔ یعنی ایسا پھل ہے، پھیکا پھل ہے اگر اُس کا سرکاٹ ڈالو تو جواہربن جائے اور پاؤں کاٹو تومیٹھا ہوجائے۔ ’’یہ ہے کھیرا‘‘ یعنی کھیرے کا سرکاٹ دو ’’ک‘‘ تو ہیرا اور ’’ا‘‘ کاٹو تو کھیر۔ پوری کھائے کچھ نہ ہوئے ، سرکاٹ کھائے فوراً مر جائے۔ بوجھ ہے ’’قسم‘‘ یعنی قسم کا ’’ق‘‘ کاٹ دیا جائے تو ’’سم ‘‘بنتا ہے سم زہر کو کہتے ہیں ۔ جس کے کھانے سے فوراً ہی موت واقع ہو جاتی ہے۔ دنیا میں ایک شجر ہے جس کو نہیں ہے چین ظاہر غمِ حسن ؑہے تو باطن غمِ حسینؑ بوجھ ہے ’’مہندی‘‘ مہندی کے پتے سبز رنگ کے ہوتے ہیں ، جب اُن پتوں کو پیس کر ہاتھوں پہ لگایا جاتا ہے تو سُرخ ہو جاتی ہے۔ ایک خوبصورت پہلی نظم کی صورت میں علّامہ صاحب کی ڈائری میں لکھی ہے۔ جس کے خالق مفصّل ؔہیں۔ حیواں ہے نہ انسان ، جن ہے نہ وہ پری ہے سینے میں اُس کے ہر دم اک آگ سی بھری ہے کھا پی کے آگ پانی چنگھاڑ مارتی ہے سر سے دھواں اُڑا کر غصہ اُتارتی ہے وہ گھورتی گرجتی بھرتی ہے اک سپاٹا ہفتوں کی منزلوں کو گھنٹوں میں اُس نے کاٹا آتی ہے شور کرتی جاتی ہے غل مچاتی وہ اپنے خادموں کو ہے دُور سے جگاتی بے خوف و بے محابہ ہر دم رواں دواں ہے ہاتھی بھی اُس کے آگے اک مورِ ناتواں ہے آندھی ہو یا اندھیرا اس کو ہے سب برابر یکساں ہے نورو ظلمت اور روز سب برابر اُتَّر سے دَکھن تک پورب سے لے پچھاں تک سب ایک کر دیا ہے پہنچی ہے وہ جہاں تک پردیسیوں کو جھٹ پٹ پہنچا گئی وطن میں  ڈالی ہے جان اُس نے سوداگری کے تن میں ہر چیز میں نرالی ہے چال ڈھال اُس کی پائو گے صنعتوں میں کم تر مثال اُس کی برکت سے اس کے بے پر پردار بن گئے ہیں مُلک اس کے دم قدم سے گلزار بن گئے ہیں تم کہہ چُکے مفصّل جو کچھ ہے کام اس کا جب جانیں تم بتائو بن سونچے نام اس کا بوجھ ہے ’’ریل گاڑی‘‘ یہ اُس دَور کی پہیلی ہے جب ریل گاڑی میں سفر کرنا بہت اچھا لگتا تھا اور مسافر اس کے سفر سے بہت خوشی محسوس کرتے تھے ، ہندوستان میں یہ معیار آج تک برقرار ہے، یعنی آراہ دہ اور محفوظ سفر۔ یہ اور بات ہے کہ حادثات بھی ہوتے ہیں لیکن وہاں  پاکستان کے مقابلے میں حادثات کا تناسب کم ہے۔ اور اُس وقت تو ہوتے ہی نہیں تھے۔ وہاں آج بھی محکمہ ریل کی کارکردگی بہت عمدہ ہے۔ پوری دُںیا میں جاپان اور ہندوستان دو ہی ملک ہیں کہ جہاں ریل گاڑی ملکی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے ۔ اُس کی آمدن مُلکی ضروریات اور ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوتی ہے ، وجہ شاید یہ ہے کہ وہاں کے لوگ محب ِ وطن ہیں ، سُننے میں یہ بھی آیا ہے کہ بغیر ٹکٹ سفر نہیں کرتے، مُلکی املاک کو نقصان نہیں پہنچاتے، ڈبوں میں لگے بلب، واش روم کی ٹونٹیاں، صابن اور تولیے چُرا کر گھر نہیں لے جاتے، اور نہ ہی چاکنگ کر کے ریل کے خوبصورت ڈبوں کے حُسن کو بگاڑتے ہیں۔ نہ ہی اُنہیں اشتعال میں آ کر آگ لگاتے ہیںاور نہ ہی پٹریوں کو اُکھاڑ کر عوام کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں۔ کبھی کبھی کلاس میں اپنے اساتذہ کو بھی تنگ کرتے تھے کلاس میں شور بھی کرتے تھے جو اچھے استاتذہ تھے اور جن سے ہم متاثر تھے اُن کو تنگ نہیں کرتے تھے لیکن جو ایسے ٹیچر تھے پریشان کرنے والے اُن کو مل کر خوب تنگ کرتے تھے وہ بھی جب ہم آٹھویں نویں کلاس میں پہنچے اور دیکھا دیکھی دوسرے لڑکوں کے ساتھ ہم بھی شور میں شامل ہوجاتے ۔زور زور سے باتیں کرنا، بار بار پانی پینے کے لیئے باہر جانا، کبھی واش روم کے بہانے جانا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ چھٹی کلاس میں حسین آباد اسکول میں بہت خوبصورت بناہوا تھا اُس میں چاروں طرف لوہے کی گرل لگی ہوئی تھی تو ہاتھ میں اسکیل تھی اور ہم نے اسکیل کو لوہے کی گرِل پر رکھا اور تیز تیز چلے،اب جو آواز پیدا ہوئی اسکیل کی رگڑ سے کھٹ کھٹ،کھٹ کھٹ،کھٹ کھٹ،کھٹ کھٹ ،کھٹ ۔پرنسپل صاحب بھی اپنے دفتر کی طرف جارہے تھے ہم نے پرنسپل صاحب کو دیکھا ہی نہیں بس اپنی مستی میں مست اور اپنے دوستوں کے ساتھ اسکیل سے گرِل پررگڑ لگاتے ہوئے چلے جارہے تھے کہ اچانک پرنسپل صاحب کی گونج دار آواز نے چونکا دیا اور پرنسپل وہیں سے چیخے پکڑو! کون ہیں یہ لڑکے، دوڑے چوکیدار وغیرہ سب پکڑلائے۔ یہ کیا کررہے تھے تم لوگ ؟ کھڑے رہو؟ تیس منٹ تک اُنھوں نے اپنے آفس کے کے باہر ہمیں کھڑے رکھا۔ہلنا نہیں ہے! ایک مرتبہ ہم نے کرمچ کے جوتے پہنے ہوئے تھے اور بجائے دروازے کے دیوار پارک کی پھاندنے لگے دیوار پر چڑھ تو گئے ،دیوار میں لگی تھیں لوہے کی نوک دار چھوٹی چھوٹی سلاخیں اب جو دیوار پر کھڑے ہوئے تو جوتوں میںوہ سلاخیں گُھس گئیں اب نہ اِدھر اور نہ اُدھر، جھول رہے ہیں کھڑے ہوئے بڑی مشکل سے وہاں سے نکلے پاؤں بھی زخمی ہوگئے۔ اسکول اور کالج میں کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا یا ُتو ُتو مَیں مَیں نہیں ہوا ،ہم سب کے ساتھ سب ہمارے ساتھ پیار محبت سے رہتے تھے ۔بہت اچھا زمانہ تھا۔ اسکول کے زمانے میں ہاکی اور بیٹ منٹن کھیلتے تھے۔ گھرپر بھی بہن بھائیوں کے ساتھ خوب بیٹ منٹن کھیلتے ۔اس کے علاوہ بچپن کے کھیل پہل دوج، بول میری مچھلی کتنا پانی ،کوڑا جمال شاہی،چھپا چھپائی،کیا حَسِین دور تھا۔ اب یاد آتا ہے۔ جب ہماری روزہ ُکشائی ہوئی تو ہم نے روزہ رکھا خوب تیاری ہوئی افطاری کی پورے محلے اور مسجد میں افطاری بانٹی گئی۔ اِسی طرح ہماری سالگرہ بھی بڑی شان سے ہوتی تھی والدہ بڑا اہتمام کرتی تھیں کھانے پینے کا سالگرہ میں خاص طور پر دودھ، دہی اور زَردہ ہو تا تھا مولاناصاحب جو نذر دینے آتے تھے اُنھیں پیسے بھی دیئے جاتے، والدہ ہماری سالگرہ کا کلاوہ ناپ کر اُس میں گرہ لگاتی تھیں۔ یہ سب ایسا لگتا ہے کہ کل کی بات ہے ۔لکھنؤ میں جب موسمِ برسات کا آغاز ہوتا تو جگنووں کی یلغار ہوتی تھی اندھیری برسات کی راتوں کو جگنوں کی روشنی جگمگ جگمگ کرتی بھلی معلوم ہوتی تھی۔ بڑی مشکل سے ہاتھ آتے تھے پکڑ پکڑ کے ململ کے کپڑے میں باندھ لیتے تھے۔ جگنو دراصل گوبر سے پیداہوتے ہیں ۔جب بارش کا پانی گوبر میں پڑتا ہے تو جگنو پیدا ہوتے ہیں۔ ہمیں ّسکے اور ڈاک کے ٹکٹ جمع کرنے کا بہت شوق تھا لیکن جب کسی کو ّسکے یاٹکٹ کی ضرورت ہوتی اور وہ ہمارے پاس ہو تا تو ہم فوراً اُسے دے دیتے اس طرح ہم نے اپنے تمام جمع شدہ ّسکے اور ڈاک کے ٹکٹ دوسروں میں تقسیم کردیے ۔پھر شوق ہواشاد ی کے کارڈ جمع کرنے کا ،وہ اب تک ہمارے پاس محفوظ ہیں ہم نے اب تک کا البم بنایا ہوا ہے۔ تصویریں جمع کرنے کا شوق تھا جو ملا اُسے کہا تصویر دے دیجئے وہ بھی البم کی صورت میں اب تک ہمارے پاس ہے ۔ تیرہ چودہ سال کی عمر سے پان کھانا شروع کیا پہلے چھپ چھپ کے کھاتے اور کم کھاتے ،پان کھاتا دیکھ کر ڈانٹ پڑتی تھی کہ دانت خراب ہوجائیں گے مت کھاؤ اور اب دیکھیئے دانت خراب ہوہی گئے۔ دھوپ میں نکلنا منع تھا کہ رنگ کالا ہوجائے گا۔ صحت خراب ہوگی۔ بچپن کی اتنی باتیں یاد ہیں کہ کئی جلدیں لکھی جاسکتی ہیں ۔ مثلاً ۔ہر زمانے میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی بچے کوئی نہ کوئی چِڑ بنالیتے ہیں بناتے دراصل بڑے ہی ہیں لیکن بچوں سے منسوب کردیتے ہیں۔ تو ہمارے بچپن میں بھی کچھ ایسے لوگ تھے جن کو بچے بڑے سب چِڑھاتے تھے اُن میں ایک خاتون تھیں ہرے رنگ کا برقعہ پہن کر باہر نکلتی تھیں ہاتھ میں ایک چھڑی ہوتی تھی۔ جیسے ہی بچوں کی نظر اُن پر پڑتی تو بچے زور سے کہتے ،مُرغی چور…… بس مرغی چور کہا اور بڑی بی نے کوسنے دینے شروع کیے۔ ارے کم بختوں!تمہیں موت آجائے۔خدا تمہیں غارت کرے۔ تم چور تمہارا باپ چور تمہاری ماں چور تم سب چور، اور چھڑی لے کر بچوں کے پیچھے مارنے دوڑ تیں۔ہم اُنھیں نہیں تنگ کرتے تھے بس دور سے دیکھتے تھے۔ اتوار کے دن جب وہ گھر سے نکلتی تو بچے تو گھروں میں سو رہے ہوتے تھے اب اُنھیں چھیڑے کون،تو بڑبڑاتی ہوئی چلتیں،آج کہاں مرگئے کہاں دَفع ہوگئے اور چھڑی کو زمین پر یا کسی مکان کی دیوار پر مارتی چلتیں،آج کسی کو موت نہیں آئی ارے کہاں ہو کم بختو!سب لوگ حیرت سے دیکھتے کہ آج اِنھیں تنگ کرنے والا کوئی نہیں تو کتنا اِنھیں افسوس ہورہا ہے ۔بچوں کو کتنا یاد کررہی ہیں۔ ایک بات کا افسوس رہے گا کہ دوستوں میں بچپن سے لیکر جوانی تک اب تک کوئی نامور آدمی نہیں بناکہ کوئی بڑا آدمی بنا ہو ایسا کہ جس کو دنیا جانتی ہو اُس کی شہرت ہو، اور ہم فخر کریں کہ یہ ہمارے بچپن کا دوست ہے۔ جب ہم انڈیا گئے لکھنؤ تو جو بچپن کے دوست تھے وہ سب ملے میرے ساتھ ایک لڑکا پڑھتا تھا اُس کا نام صادق تھااُس کی شہرت کی وجہ اُس کے لمے بال تھے اسکول کے زمانے میں، اچھالڑکا تھا اسمارٹ تھا اُس کے ساتھ ُچھٹی میں گھرآتے تھے ۔وہ مجلسوں میں بھی آتا تھا تو جب سن بیاسی میں لکھنؤ گئے تو وہاں ایک گورنمٹ کاادارہ ہے اُردو اکیڈمی، اُسے کے چیئرمین بڑے آدمی تھے وہ ہمارے والد کے دوستوں میں سے تھے اور ہماری دوستی اُن کے اَدبی رشتے سے ہوگئی تو جب ہم اُن سے ملنے گئے اور ہم اندر داخل ہوئے تو دیکھا گیٹ پہ یہ صادق بیٹھا ہوا ہے ہم نے خیرخیریت دریافت کی اور اُوپر چیئرمین کے کمرے میں چلے گئے۔ جب اوپر سے ہم اُترے تو اُن سے ذرا تفصیلی بات چیت ہوئی۔ چیئرمین نے کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں ہمارا کھانا ُبک کرایا ہوا تھا تو وہ اب اُترے ڈرائیور گاڑی لے کر آیا تو گاڑی کادروازہ اُنھوں نے ہمارے لیئے کھولابٹھانے کے لیئے چیئرمین صاحب نے،تو کہنے لگا مجھے اب احساس ہوا کہ تم اتنے بڑے آدمی ہوگئے ہو،پہلے مجھے اندازہ نہیں تھا اب مجھے اس بات پر فخر ہے کہ تمہارے لیئے چیئرمین اُردو اکیڈمی نے دروازہ کھولا، حالانکہ میں اُس سے اُسی طرح ملا تھا جیسا کہ بچپن میں ملا کرتے تھے۔ بہت سے بچپن کے دوست آآکے یاد دلاتے تھے کہ میں بچپن میں آپ کے ساتھ پڑھتا تھا اور ہمیں سب یاد آتا جاتا تھا ہم اکیلے ہی پاکستان آئے ہمارے سب دوست لکھنؤ ہی میں رہ گئے ۔اب جب کبھی بچپن یاد آتا ہے تو سارا منظر نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔ ماں باپ خاندان کے بزرگ سب شدّت سے یاد آتے ہیں آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں۔ ناقابلِ فراموش واقعہ:- امام بارگاہ جامعۂ سبطین گلشنِ اقبال 13-D/1 میں عشرۂ چہلم حضرت امام حسینؑ کی تیسری مجلس ِعزا ’’بعنوان علت اور شریعت ‘‘ سے قائد ِ ملتِ عزا حضرت علاّمہ ڈاکٹر سیّد ضمیراختر نقوی خطاب کرنے کے لیئے منبر پر جلوہ افروز ہوئے تھے ابھی آپ نے لب ہائے مبارک سے اتنے ہی الفاظ ’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے اور درود و سلام محمدؐ و آلِ محمدؐ پر‘‘ ادا کیئے تھے کہ مووی میکر ( زوّار حسین ) جو مجلس کی ویڈیو تیار کررہے تھے کے کیمرے کے پاس بیٹھے ہوئے ایک دہشت گرد نے جس نے فلسطینی رومال گلے میں ڈالا ہوا تھا اچانک نعرہ لگایا نعرۂ تکبیر، شرکا نے جواب میں کہا اللہ اکبر اُسی دہشت گرد نے دوسرا نعرہ لگایا قرآن وہ کتاب ہے، جواب میں کہا گیا جو درسِ انقلاب ہے اور پھر سامعین میں بیٹھے ہوئے مختلف جگہوں سے تقریباً 60 سے 65 دہشت گردجن سب کے گلوں میں فلسطینی رومال بندھے ہوئے تھے۔ یہ کہتے ہوئے اُٹھے۔لبیک یا حسین ؑ ، لبیک یا حسین ؑ اُن سب کے ہاتھوں میں پتھر تھے اور وہ منبر پر پتھر مارتے ہوئے علاّمہ ضمیراختر نقوی کی طرف بڑھے۔اُن سب کا رخ منبر کی طرف تھا جیسے ہی ہمیں احساس ہوا کہ یہ تو علاّمہ صاحب پر حملہ کرنے آرہے ہیں تو ہم نے دفاع کرنے کی کوشش کی لیکن اُن کی یلغار کو نہ روک سکے۔جیسے ہی مجمع کے ساتھ میں اُن کے آڑے آیا تو مجھ سمیت کئی لوگوں کو تھپڑوں ،گھونسوں اور لاتوں کی بوچھاڑ سے نوازہ گیا۔جتنی دیر میں ہم سنبھلتے اتنی دیر میں یہ دہشت گرد علاّمہ صاحب کے منبر تک پہنچ چکے تھے۔لیکن شاباش ہے اُن بچوں کو جن کی عظیم ماؤں نے ولایت ِ علی ؑ کی آمیزش سے بھرا دودھ اپنے ان سپوتوں کو پلایا ہے۔جن کی رگ رگ میں عزاداریٔ امامِمظلومِؑ کربلا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔اُن کی عمر یں بارہ سے بیس برس کے درمیان ہوں گی۔ چاروں طرف سے علاّمہ صاحب کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ایسا لگ رہا تھا کہ شمعِ امامت کے پروانے ُخلد سے اُس مظلوم و بیکس سیّد زادے پر اپنی جان نچھاور کرنے آگئے ہوں۔ ان بچوں پر لوہے کی سلاخوں،پتھروں ،ہاتھوں میں پہنے ہوئے پنچ اور کلیپوں کے وار ہورہے تھے لیکن ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔اسی دوران کسی نابکارنے کہیں سے ایک سیمنٹ کا بلاک منبر کی طرف پھینکا جو علاّمہ صاحب کی پسلیوں پر لگا۔ایک پتھر پیشانی اور دوسرا دائیںرخسار پر پھر تو پتھروں کا مینہ برسنے لگا۔منبر پر نصب شدہ ،علم توڑ کر پھینک دیا گیا۔منبر پر ٹھوکریں ماری جانے لگیں۔ایک دہشت گرد تویہ کہہ کر منبر پر ٹھوکریں ماررہاتھا کہ اس پر بیٹھ کر علاّمہ ضمیراختر نقوی پڑھتا ہے۔ایک سمت سے کسی نجس انسان نے جوتا پھینک کر مارا جو منبر پر لگا۔ علاّمہ صاحب کے جانثاروں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے علاّمہ صاحب کو اپنی چھاؤں میں لے لیا اور منبر سے مسجد کے اندر لے گئے اور دروازہ اندر سے بند کرلیا۔علاّمہ صاحب بے ہوش ہوچکے تھے۔یہ دہشت گرد مسجد کے دروازے پر جمع ہوگئے اور لاتوں سے دروازہ توڑنے لگے۔اچانک گولی چلنے کی آواز آئی تو یہ دہشت گرد فوراً ہی امام بارگاہ سے باہر کی طرف بھاگے۔ یہ بات بھی بتانا ضروری ہے کہ خواتین جو مجلس سننے آئیں تھیں اُن کے ساتھ معصوم بچّے اور بزرگ خواتین بھی ان لوگوں کی دہشت گردی سے محفوظ نہ رہ سکیں۔خواتین چونکہ مدرسے کی طرف بیٹھی ہوئیں تھیں۔کچھ دہشت گرد ان خواتین کو مارتے ہوئے بچوں کو اپنی ٹھوکروں سے ہٹاتے ہوئے اس ہنگامے میں داخل ہوئے ۔جن کے پاس لوہے کے سرئیے اور پائپ کے لمبے لمبے ٹکڑے تھے۔یہ خواتین سے کہتے جاتے تھے کہ اب سنو گی ضمیراختر کی مجلس ۔کسی کو دھکا دے کر گراتے اور کسی کو تھپڑمارتے ان لوگوں نے نہ کسی بزرگ کو دیکھا نہ کسی بچّے کو نہ کسی عورت کو جو سامنے آیااُسے مارا ،زخمی کیا،سر پھاڑا، میرا اپنا بھی سر پھٹا میرے بچّے بھی زخمی ہوئے اور بہت سارے لوگ ان کی دہشت گردی کا نشانہ بنے سارا مجمع ّتتر بتر ہوگیا۔کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا ۔ علاّمہ صاحب پر مسلسل بے ہوشی طاری تھی۔دو تین گھنٹے بے ہوش رہے جب ہوش آیا تو اُنھیں سامنے والے گھر میں منتقل کرنا تھا ۔پویس رینجرز خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔اُنھوں نے کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی بلکہ یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ یہ آپ لوگوں کا اپنا معاملہ ہے ہم لوگ اس معاملے سے دور ہیں۔یہ دہشت گرد امام بارگاہ سے نکلنے کے بعد باہر جمع ہوگئے۔اُنھوں نے باقی ماندہ ساتھیوں کو بھی بلالیا۔امام بارگاہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ان کی تعداد 500 کے لگ بھگ ہوگی۔جیسے ہی علاّمہ صا حب کو لے کر امام بارگاہ سے نکلے ان لوگوں نے علاّمہ صاحب پر دوبارہ حملہ کردیا۔اب یہ لوگ زیادہ منظم ہوکر آئے تھے۔ان کے پاس آتشی اسلحہ بھی تھا یہ تو معجزہ ہی ہے کہ کسی نے گولی نہیں چلائی یا انھیں موقع نہ مل سکا۔لیکن سریوں ، ڈنڈوں اور پتھروں سے بھرپور حملہ کیا علاّمہ صاحب کے جانثار وں نے بھی بھر پور مزاحمت کی اور اپنے ہاتھ پاؤں تڑوا کر سر پھڑوا کر علاّمہ صاحب کو بخیر و عافیت ناصررضا صاحب کے گھر پہنچا دیا۔ان دہشت گردوں کو چین نہ آیا اُنھوں نے ناصر رضا صاحب کے گھر پر بھی پتھراؤ کیا ۔جب یہ اپنے ارمان پورے کر چکے تو صبح اذان کے بعد وہاں سے علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ واقعہ اتنا دلخراش اور ڈراؤنہ تھا کہ میں تین رات سو نہ سکا بار بار،یہی منظر میری آنکھوں کے سامنے آتا رہا۔میں جب بھی اس خونی واقعہ پر غورکرتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کربلا سے کوفہ ،کوفہ سے شام حضرت امام سیّد سجاد ؑ پر اور پاک مستورات پر کئی مقام پر پتھرؤں کی بارشیں ہوئیں۔ جامعہ ٔ سبطین میں ذاکرِ حسین ؑ ،منبر،علم ،امام بارگاہ، مسجد اور سب سے بڑھ کر ذکرِ حسین ؑ کی بے حرمتی کی !کیا عزاداروںپر پتھراؤ کرنے والوں کا تعلق کوفہ و شام کے لوگوں سے تو نہیں؟پوری قوم کے لیئے لمحۂ فکریہ ہے۔ علاّمہ ضمیر اختر نقوی وہ برِصغیر پاک و ہند کے پہلے خطیب ہیں جنھوں نے 400 سو کتابیں قوم کو تحفے میں دیں۔ان کے خطابات میں صرف اور صرف محمدؐ و آلِ محمدؐ کی ثنا اور مصائب ہوتے ہیں۔پورے پاکستان کیا بلکہ دنیا میں ان کی مجالس میں زیادہ لوگ شرکت کرتے ہیں۔مجھے تقریباً بیس برس ہو چکے ہیں۔میں ان کی مجالس بڑے شوق سے سنتا ہوں۔یہ دنیا کے تمام شیعوں کے دل کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ دراصل ہم شیعوں میں دو گروہ ہیںایک گروہ تقلیدی کہلاتا ہے جو اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے مجتہدین کی تقلید کرتا ہے۔اُن کے فتووں کو حرفِ آخر سمجھتا ہے ان کے عقائد کے مطابق مجتہدین کو دین میں رد و بدل کرنے کا اختیار ہے ۔ دوسرا گروہ اخباری کہلاتا ہے۔یہ گروہ صرف اثناء عشری یعنی (بارہ امام کو ماننے والا)کہلاتا ہے ۔ان کے عقیدے کے مطابق آئمہ معصومین ؑ کوتمام اختیارات حاصل ہیںاور یہ لوگ آئمہ معصومین ؑ کے فرامین کے مطابق صرف وہ کام کرتے ہیں۔ جن کا حکم آئمہ نے دیا ہے کسی کو دین میں رد و بدل کرنے کا اختیار نہیں ہے یہ لوگ صرف آئمہ کی احادیث پر عمل کرتے ہیں۔ تو علاّمہ ضمیراختر نقوی کا تعلق بھی (شیعہ اثنا ء عشری) اخباری گروہ سے ہے۔ اس لیئے تقلیدی گروہ ان کا دشمن بنا ہوا ہے۔تقلیدی گروہ یہ چاہتا ہے کہ یہ ہمارا مذہب قبول کرلیں اور جس طرح غیر ملکی شیعہ قیادت چاہتی ہے وہ راستہ اختیار کریں۔ استغاثہ بحضور امامِ عصر علیہ السلام اے فخرِ آدم و عیسیٰؑ تمھیں پکارا ہے علیؑ کا واسطہ آؤ میری مدد کے لیئے تمہی سے رزق بھی ملتا ہے اور روزی بھی پلٹ کے آئیے جلدی سے دلبری کے لیئے مقصّرین سے مولا بچائیے آکر ہمارا کون ہے دنیا میں رہبری کے لیئے یہ ظلم ڈھاتے ہیں ہم پر ہمارے بچوں پر عقیدے اِن کے مٹاتے ہیں حرملا کے لیئے اِنھیں نہ غرض ہے ماتم سے اور نہ مجلس سے نمازیں پڑھتے ہیں سڑکوں پہ شاعری کے لیئے نہ اِن کے ہاتھوں سے محفوظ ذاکر و سامع یہ وار کرتے ہیں اپنی ستمگری کے لیئے امام باڑہ پہ حملہ کیا َعلم توڑے حسد کے ماروں نے مارا تونگری کے لیئے یہ ابنِ زیاد کے رشتہ میں بھائی لگتے ہیں شمر ہے اِن کے لیئے اور یہ شمر کے لیئے نحیف و ناتواں مظلوم ہیں ضمیراخترؔ کہ زخم کھاتے ہیں حُبِ شہِ عزا کے لیئے ولائے آلِ محمدؐ ہمیں پلاتے ہیں حفاظت اِن کی کریں آپ بس خدا کے لیئے تمہارا عشق ہے گویا ہمارا سرمایہ ہمیں بنایا ہے اللہ نے تمہارے لیئے تمہاری چشمِ عنایت کا منتظر حیدرؔ پڑا ہے راہ میں آکر ضمیر حق کے لیئے سیّد حیدر علی زیدی ززز علّامہ صاحب کی شہرت اور مقصّرین کا ردِّ عمل-: علاّمہ صاحب نے آج سے پچاس برس پہلے خطابت کا آغاز کیا یہ بات سب لوگ جانتے ہیں اِسی دوران شاعری بھی کی کتابیں بھی لکھیں علم و ادب سے متعلق جتنے کام تھے سرانجام دیئے لیکن ایک خاص بات جو سب سے افضل ہے ’’عزاداری اِمام مظلوم کربلا‘‘ عزاداری کا پودا جو علاّمہ صاحب نے لگایا وہ زمانے کی سختیوں اور موسموں کے تفیرات سے بے نیاز ہو کر ولایت ِ علی ؑ کی خوشبو بکھرتا ہوا ایک تنا ور درخت بن چکا تھا جو ابھی تک قائم ہے اور انشاء اللہ تاقیامت باقی رہے گا ان پچاس برسوں میں علاّمہ صاحب نے علومِ محمدؐ و آلِ محمدؐ کی اشاعت کے لیے کیاکیا جتن نہیں کیے۔ جان جوکھم میں ڈال کر گھر گھر علم پھیلایا، امن و دوستی ،خلوص و محبت، اخلاق و رواداری بھائی چارہ، وفا شعار ی اور انسانیت کا ادب و احترام ِسکھلایا، باعزّت زندگی گزار نے کا اصول سمجھایا بگڑے ہوئے لوگوں کو حق کا راستہ دکھلایا،قوم کو عزاداری کا مفہوم بتلایا، اپنی ساری زندگی قوم کو سُدھارنے میںتیاگ دی، کبھی تحریر سے کبھی تقریر سے اس محنت کا پھل ظاہر اس طرح ہوا کہ لوگ برائیوں سے بچنے لگے کئی برائیاں ایسی ہیں جن کا نام لینا مناسب نہیں،کئی لوگ ایسے ہیں جن کا نام لینے سے اُن کی عزّت ِ نفسِ مجروح ہونے کا خدشہ ہے۔ تولوگوں نے ُبرے کاموں سے توبہ کرلی۔اب وہ اپنی زندگی بڑے خوشگوار طریقے سے گزار رہے ہیں۔لوگوں نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا جو برائیوں کی جڑ ہے۔مومنین جوق در جوق علاّمہ صاحب کے حلقہ ِ ارادت میں داخل ہونا شروع ہوگئے، شجرِ عزاداری کے سائے تلے بیٹھنے لگے ۔یہ علاّمہ صاحب سے مومنین کا والہانہ لگاؤ تھا کہ ایک ایک دن میں آٹھ آٹھ مجالس سے خطاب شہر بھر کے امام باڑوں کی بیرونی دیواروں پر اشتہارات، ہر چوراہے پر بڑے بڑے بینر علاّمہ صاحب کی خطابت کی تشہیر کررہے تھے ۔ دور دور سے مومنین مجالس سننے آرہے تھے ۔علاّمہ صا حب جہاں جہاں جاتے مجمع پیچھے پیچھے وہاں پہنچ جاتا۔ جہاں خطاب کرتے ہزاروں کا مجمع سڑکیں بند ہوجاتیں نہ کوئی حفاظتی عملہ نہ بندوق بردار نہ کوئی حکومتی اہلکار۔ علاّمہ صا حب کو بندوقوں کی چھاؤں میں مجلس پڑھنا اچھا نہیں لگتا ۔یہ کام تو وہ لوگ کرتے ہیں جنھیں اپنی زندگی کا خطرہ ہوتا ہے مذہبی ُمنافرت پھیلاتے پھرتے ہیں۔دین کا سودا کرتے پھرتے ہیں، سیاست میں گھرے ہوئے ہیں۔ علاّمہ صاحب کی شہرت کو حاسدین کی نظر کھاگئی، جہاں محبتیں اور اُلفتیں پھیل رہی تھیں دنیا کے ّچپے ّچپے میں علاّمہ صاحب کی ُکتب ،آڈیو اور ویڈیو کیسٹس لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہورہی تھیں دنیا کے ہر خطے کا عزادار اِنھیں خوشی خوشی خریدرہا تھا باقی ماندہ ذاکرین کو لوگ نہ ہی تو سن رہے تھے اور نہ ہی کوئی کیسٹ یا کتاب خریدرہا تھا پہلی بات تو یہ کہ اُن کی نہ کوئی کیسٹ اور نہ ہی کوئی کتاب تو خرید ے گا کون؟ اور اگر ہے بھی تو اُن کا مقابلہ علاّمہ صاحب سے ’’چہ ِنسبَت خاک رَاباعَالِم پاک‘‘ تو جہاں محبتیں اور اُلفتیں پروان چڑھ رہی تھیں وہیں حاسد ین کے دلوں میں علاّمہ صاحب کے خلاف لاواپک رہاتھا۔ نفرت کا بیج پروان چڑھ رہاتھا ۔اِن کے کارندے پَل پَل کی خبریں اِنھیں پہنچارہے تھے یہ اپنے بڑوں کو رپورٹ پہنچارہے تھے اِس طرح تمام حاسدین نے علاّمہ صاحب کے خلاف ایک خفیہ منصوبہ مرتب کیا کہ کسی طرح ان کو مجالس پڑھنے سے روکاجائے عزاداروں اور ماتمیوں کو اِن کے خلاف اُکسایا جائے تو اُنھوں نے علاّمہ صاحب کے خلاف ایک مہم چلائی پہلے علاّمہ صاحب کی تقریر کو غلط رنگ میں پیش کرنے کی مذموم کوشش کی اور من گھڑت باتیں اِن کی تقریر سے منسوب کردیں کہ تقریر میں یہ کہہ دیا اور وہ کہہ دیا یہ حاسدین مخالفت میں اتنے بڑھے کہ ہوش وحواس کھو بیٹھے علاّمہ صاحب نے ابنِ زیاد معلون کا شجرہ جعفرِ طیّار سوسائٹی کے مرکزی امام بارگاہ میں مختار نامہ پڑھنے کے دوران کیابیان کیا کہ مرنے مارنے پر آمادہ ہوگئے، موقف یہ اختیار کیا کہ ابنِ زیاد کا شجرہ منبر سے کیوں بیان کیا یہ منبر کی توہین ہے امام بارگاہ اور مجلس کی توہین ہے اِسی بات کو جواز بناکر جگہ جگہ علاّمہ صاحب کے خلاف اَوُل فول بکنے لگے ۔ علاّمہ صاحب نے ہر مقام پر اپنے علم و حِلم اور َتدّ بر سے مردانہ وار اِن کا مقابلہ کیا اور جوابات دیے لیکن یہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور متواتر علاّمہ صاحب کی تقاریر کے معرفت آمیز اور ایمان افروز جملے توڑمروڑکر زبانی کلامی اور SMS کے ذریعے پھیلاتے رہے۔ نجی محفلوں ،گلی محلوں، مساجد اور امام باڑوں میں بھی ان جملوں کو غلط انداز سے پیش کیا لیکن مومنین کے دلوں کو نہ پھیر سکے بلکہ سامعین کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا کیونکہ وہ تو ایک ایک مجلس سن رہے تھے ہر مجلس میں علاّمہ صاحب کے پیچھے ہزاروں کا جمِ غفیر ہوتاتھا، ماتمیوں اور عزاداروں نے ان حاسدین کی باتوں کا اثر قبول نہیں کیا اورنہ ہی علاّمہ صاحب اپنے موقف سے ہٹے اب اِن کی دشمنی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ ان کے ترکش افواہ اور پروپیگنڈہ کے تیروں سے خالی ہوچکے تھے تو اُنھوں نے اُن مدرسو ں کے علماء کو اپنے ساتھ ملایا جو غیرمقامی تھے اُنھیں اپنا ہم خیال بنایا جو پہلے ہی مدرسوں میں مُقصریت کو پروان چڑھارہے تھے اور مدرسوں کے طلباء کو علاّمہ صاحب کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا اس کام پر اِنھیں لاکھوں روپے خرچ کرنا پڑے۔ایک ایک مدرسے کو کئی کئی لاکھ روپے دیے گئے، طلباء چونکہ اُن علماء کے زیرِ اثرتھے اُن کی بات کوحرف ِ آخر سمجھتے تھے بچپن سے اُن کی زیرِنگرانی تربیت پارہے تھے ان کا بھر پور ساتھ دینے پر فوراً آمادہ ہوگئے ۔کراچی کے وہ مدرسے جن پر کراچی کے شیعوں نے کروڑوں روپے خرچ کرکے اس لیئے تعمیر کروائے تھے کہ یہ غیر مقامی بچے اور یتیم علم حاصل کرکے دین کی خدمت کریں گے ۔عزاداری کو فروغ حاصل ہوگا، سہم امام وسادات ،زکوٰۃ، فطرہ، صدقہ خیرات اور ہدیہ، نذر و نیاز بلا جھجک ہڑپ کرنے والے نمائندے سب کے سب مقامی شیعوں کے احسانات بھلا بیٹھے۔ حالانکہ جانتے ہیں کہ ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ وہ لوگ جن کے آبائی گاؤں اور دیہات میں پیٹ بھر کھانے کو روٹی میسر نہ تھی رہنے کا ٹھکانہ ایک جھونپڑی کے سوا کچھ نہ تھا اگر کسی کے پاس تھوڑی بہت زمین بھی ہے تو بارانی ،کبھی فصل ہوئی کبھی نہ ہوئی کراچی آنے کے لیے کرایہ نہ تھا، قرض لے کر آئے اور پھر کراچی کے مدرسوں کی وادیوں میں گم ہوگئے یہاں انواع اقسام کے کھانے ملے۔ رہنے کے لیئے بہترین اَئیر کنڈیشنڈ مکانات ، سواری کے لیئے بہترین اَئیر کنڈیشنڈ گاڑیاں بہترین ملبوسات، اسلحہ سنبھالے حفاظت پر ما ُمور رکھوالے، غیر شیعہ مذہبی پارٹیوں سے رابطے، عشایئے ،ظہرانے دعوتیں معمول بن گئے۔ کس کی بدولت،کس کی مرہونِ منّت کس کے بل بوتے پر صرف اور صرف کراچی کے مقامی شیعوں کی وجہ سے، یہ نیک دل اور خدا ترس اِن تنکوں کو سہارہ نہ دیتے تو آج ان غیر مقامی علماء اور طلباء کا زور نہ ہوتا ہمارے عقائد خراب نہ ہوئے ہوتے۔ہمارے بچے دینی تعلیم حاصل کررہے ہوتے کراچی کا امن غارت نہ ہوا ہوتا۔یہاں کا ماحول خراب نہ ہواہوتا۔ یہاں کے مقامی علماء بے خوفی کی زندگی گزار رہے ہوتے۔ کراچی کے عوام سکھ چین کا سانس لے رہے ہوتے۔ یہ غیر مقامی علماء اور طلباء اپنے ایمان اور قرآن سے بتائیں(اگر ان کا ایمان ہے) کہ بچپن سے لے کر آج تک آئمہؑ اور سادات کا پیسہ اپنی شکم ُپری اور آرام و آسائش پر خرچ کرتے آئے ہیں اُنھی پیسوں سے شادیاں کیں ۔بچے ہوئے اب ماشاء اللہ جوان ہیں غیر ممالک میں پڑھ بھی رہے ہیں نوکریا ںبھی کررہے ہیں یہاں آپ نے اپنے لیئے فلک بوس عمارتیں بنالیں ہیںتمام شعیان حیدر ِکرار اب بھی آپ کو خمس وغیرہ اُسی طرح پہنچارہے ہیں جیسا کہ پہلے پہنچارہے تھے کتنا احسان ہے اس قوم کا آپ پر آپ کی رگوں میں دوڑنے والاخون بھی امام کا صدقہ ہے یہاں آپ خوش حال ہیں دربار غیر میں آپ کے بچے، تو کیا آئمہ کی بخشی ہوئی دولت وامارت سے آئمہ کی عزاداری کو نقصان پہنچانا درست عمل ہے؟کیا سہم امام کھاکر اولادِ علیؑ و بتولؑ کو ستانہ، تنگ کرنا، دل آزاری کرنا، حملہ کرنا بے ادبی کرنا درست عمل ہے ؟ جن کے صدقے کھاکھا کر جوان ہوئے اُن کے بچوں کی عزاداری کے تقدس کو پائمال کرنا، علم توڑنا، منبر پر ٹھوکریں مارنا، ذاکر اور سامعین پر پتھراؤ کرنا جبکہ سامعین میں معصومینؑ بھی ہوتے ہیں کیا یہ سب کچھ درست عمل ہیں؟ جناب سیّدہ ؑکو روزِ قیامت کیا ُمنہ دِکھاؤگے جن ہاتھوں سے مظلوم حسین ؑ کا ماتم کرتے ہو اُنہی ہاتھوں سے علم توڑتے ہو، جن پیروں سے چل کر عزائے حسین ؑ میں شرکت کرتے ہو اُنہی کی ٹھوکروں سے منبر کی بے حرمتی کرتے ہو، جن کانوں سے فضائل و مصائب آلِ محمدؐ سنتے ہو اُن کانوں سے عزاداری کے خلاف پروپیگنڈہ سن کر اپنی زبان کو (جو یا حسین ؑ یا حسین ؑ کہتی ہے) عزائے حسین ؑ کے خلاف استعمال کرتے ہو، جن آنکھوں سے مثل ساون غمِ حسین ؑ میں اشک بہاتے ہو اُن کو علمائے حق کے لیئے خونخوار بنالتے ہو،جن قلوب کو تعلیمات ِ محمدؐ وآلِ محمد ؐ سے منور کیا علم سے بہراور کیا جن دماغوں میں ولائے محمد ؐو آلِ محمد ؐرچی بسی تھی۔اب اُن دل و دماغ میں عزاداری کے خلاف نفرتیں اور سازشیں کیوں ہیں۔ آپ کاکون ساعمل درست ہے؟ اپنا مجاسبہ ٔ کیجئے۔ کیا امامِ وقت بارہویں لعلِ ولایت حضرت امام مہدی ؑ آپ کے اقدامات سے خوش ہیں؟ ہرگز نہیں اُن کے دُکھوں میں اضافہ نہ کیجئے ۔ جب حاسدین نے دیکھا کہ اُن کے اُوچھے ہتکنڈے علاّمہ صاحب کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے تو اُنھوں نے علاّمہ صاحب پر قاتلانہ حملہ کرنے کا ناپاک فیصلہ کرلیا،تیرہ صفر المظفر یومِ شہادت ِمعصومۂ دمشق حضرت ِ سکینہ ؑ جا معۂ سبطین مسجد و امام بارگاہ میں علاّمہ صا حب نے عشرۂ ثانی کی تیسری مجلس علت اور شریعت کے موضوع پر خطاب کرنا تھا حسب ِ قائد ہ علاّ مہ صاحب فرشِ عزا سے اُٹھ کر منبر کی جانب تشریف لے گئے تمام حاضرینِ مجلس نے اُٹھ کر دَرُود کی صداؤں میں علاّمہ صاحب کو جناب ِ سکینہ ؑ کی تعزیت پیش کی جیسے ہی علاّمہ صاحب نے خطبہ تمام کیا چاروں طرف سے دہشت گرد علاّمہ صا حب کی طرف بڑھے جو اسلحہ سے لیس تھے۔ ذرا سوچئے ہمارا ایما ن ہے کہ مجلسِ عزا میں معصومین ؑ شریک ہوتے ہیں لا تعداد علماء نے اپنی ہزاروں تصانیف میں معصومینؑ کی آمد کے واقعات قلم بند کئے ہیں کئی علماء اور مومنین نے اپنی آنکھوں سے معصومین ؑ کی مجالس میں آمد کا مشاہدہ کیا ہے تو کیا امام بارگاہِ جامعۂ سبطین میں معصومین ؑ شریک نہیں تھے۔ یہ اُس َمعصُومہؑ کی مجلس تھی جس کے لیئے امامِ مظلومِ کربلا نمازِ شب میں دعا مانگا کرتے تھے۔ بے اولادوں کو اولاد دینے والا یہ دعا مانگ رہا ہے کہ اے پروردگار تو مجھے ایسی بیٹی عطا کر جسے میں سب سے زیادہ پیار کروں وہ مجھ سے پیار کرے مجھے اُس کے بغیر چین نہ آئے۔ اُسے میرے بنا چین نہ آئے اور جب میں وقت آخر تیری راہ میں قربانی پیش کروں اپنا سر تیری راہ میں کٹانے لگوں تو میری یہ بیٹی بھی میری راہ میں مزاحم نہ ہو بلکہ بخوشی مجھے رخصت کرے۔ علاّمہ صاحب پراِس َمعصُومہ ؑکی شہادت کے دن قاتلانہ حملہ ہوا ۔علاّمہ صاحب بال بال بچ گئے ۔علاّمہ صاحب پرآئی آفت اور مصیبت کی گھڑی کو سامعین نے اپنے اوپر لے لیا۔ان قاتلوں اور دہشت گردوں کا بے جگری سے مقابلہ کیا علاّمہ صاحب کے جانثاروں نے اپنی جان پر کھیل کر علاّمہ صاحب کو بحفاظت ناصررضا صاحب کے گھر پہنچایا ۔علاّمہ صاحب اس واقعے میں زخمی ہوئے کیونکہ یہ دہشت گرد علاّمہ صا حب پر پتھر او بھی کررہے تھے ایک پتھر ماتھے پر اور ایک داھنے رخسار پر لگا۔ ایک سیمنٹ کا بلاک پسلیوں پر لگا۔ جس کی وجہ سے علاّمہ صاحب بے ہوش ہوگئے تھے۔ تین روز ہسپتال میں داخل رہینے کے بعد گھر واپس آئے پچھلے اُوراق میں ذکر کرچکاہوں کہ کچھ لوگ ڈر گئے، کچھ مصلحت کی چادر اُڑھ کر بیٹھ گئے کچھ نے تقیہ اختیار کرلیا لیکن علاّمہ صا حب کے پائے استقلال میں جنبش نہیں آئی۔ آپ نے اس موقع پر ایک تاریخی جملہ کہا جو سنہری حرفوں سے تاریخ میں رقم کیا جائے گاکہ۔ ’’لوگ اصحاب ِ مسلم ؑ کی طرح میرا ساتھ چھوڑدیں یا اصحاب ِ حسین ؑ کی طرح میرا ساتھ دیں میں عزاداری کے پرچم کوہمیشہ بلند رکھو ں گا۔میرے خون کا ایک ایک قطرہ عزاداری کے لیئے وقف ہے۔ دھونس۔دھکمیاں اور شیطانی پروپیگنڈے یا اوچھے ھتکنڈے مجھے عزاداری کے موقف سے ذرہ برابر بھی ہٹانہیں سکتے ‘‘ میرا سر صرف آلِ محمد ؑکی چوکھٹ پر جھکتا ہے ۔وقت آنے پر عزاداری کی بقا کے لیئے اپنے سرکانذرانہ بھی پیش کرنے سے دریغ نہیں کروں گا۔ علاّمہ صاحب نے یہ کردکھایا، متواتر آٹھ ربیع لاوّل تک مجالس سے خطاب اُسی شان سے کیا جیسا کہ خطاب کرنے کا حق ہے۔ لیکن حاسدین اب بھی باز نہ آئے اور لگاتار علاّمہ صاحب کی تقاریر کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے آخر کار مجبور ہوکر علاّمہ صاحب نے پاکستان کے تمام اُردو ،سندھی، گجراتی اور انگریزی اخبارات میں اشتہارات دینے شروع کیئے جو ایک ماہ تک جاری رہے اُن اشتہارات کی عبارت اس طرح تھی۔   ان حاسدین کے پاس کوئی ثبوت ہوتا تو دِکھاتے ۔اگر کوئی غیر اخلاقی جملہ جس سے معاذ اللہ معصومین ؑکی شان میں کوئی فرق آتا ہو۔کیا پچاس برس کی ہزاروں مجالس میں سے نہیں ملا؟کیسے ملتا جب کہا ہی نہیں۔ جیسے ہی مولائے کائنات امیرالمومنین علیؑ ابنِ ابی طالب ؑ کی شہادت کی خبر پھیلی پوچھنے والے نے پوچھا کہ علیؑ کہاں قتل کر دے گئے جو اب ملا مسجد ِ کوفہ میں تو اُس نے حیرت سے کہا علی اور مسجد ؟ یعنی معاویہ نے اتنا سخت پروپیگنڈہ مولاؑ کے خلاف کیا ہوا تھا کہ لوگ سمجھنے لگے تھے کہ علی ؑ بے نمازی ہے۔ کچھ ایسی ہی صور ت ِ حال علاّمہ صاحب کے ساتھ ہے کہ جس نے ساری زندگی سوائے معرفت ِ محمد ؐ و آل محمدؐ کے کچھ کہا ہی نہ ہو۔ ان کی معرفت کو اپنا اُوڑھنا بچھونا بنایا ہو اُس پر یہ الزام ؟ جمادی الثانی میں شہادت ِ جناب سیّدہ ؑ کے عشرہ مجالس کے بعد علاّمہ صاحب نے احتجاجاً امام بارگاہِ جامعہ ٔسبطین سمیت کراچی کے تمام امام باڑوں میں مجالس پڑھنی موقوف کردیں ہیں۔آپ کا کہنا ہے کہ اگر عزادار، ماتمی انجمنیں اور باینانِ مجالس یہ یقین دہانی کرادیں کہ فرشِ عزا،منبر ، ذاکر تبرکات، سامعین اور امام باڑے کی بے حرمتی نہیں ہوگی تو علاّمہ صاحب احتجاج ختم کرسکتے ہیں ورنہ اسلام آباد،لاہور، ملتان یا لندن اٹلانٹا ،نیو جرسی، ہندوستان وغیرہ کہیں بھی یکم محرّم تا آٹھ ربیع الاوّل مجالس پڑھنے کے لیے جاسکتے ہیں۔ آج کل علاّمہ صاحب کی مصروفیات کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے بڑھ گئیں ہیں سو ُکتب ایسی ہیں جن کی کمپوزنگ ہوچکی ہے پروف ریڈنگ کے مراحل میں ہیں کچھ چھپائی کے لیئے پریس جاچکی ہیں۔ حال ہی میں رمضان المبارک سے پہلے شہید علاّمہ سیّدعرفان حیدر عابدی کے فرزند علاّمہ سیّد محمد علی عابدی نے علاّمہ سیّد ضمیراخترنقوی کی شاگردی اختیار کرلی ہے روزانہ علاّمہ صاحب سے درس لیئے آتے ہیں کئی کئی گھنٹے علم و معرفت کی گفتگو ہوتی ہے علاّمہ صاحب نے باقائدہ علاّمہ محمد علی عابدی کی سرپرستی کرنا قبول فرمائی ہے ۔ چوبیس رمضان المبارک پر علاّمہ عرفان حیدر عابدی شہید کی برسی علاّمہ صاحب کی زیرِ سرپرستی علاّمہ شہید کے گھر پر بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی جس میں قائد ِ اہل سنت پیر سیّد آصف رضا گیلانی لاہور سے علاّمہ صاحب کی خصوصی دعوت پر تشریف لائے اور مجلس سے خطاب کیا علاّمہ شہید کے برادرِ حقیقی علاّمہ سیّد فرقان حیدر نے بھی مجلس سے خطاب فرمایا معروف نوحہ خواں سیّد ناصر حسین زیدی،سیّدعلی صفدر زیدی، سیّد مسیب علی، اور ڈاکٹر ریحان اعظمیٰ نے منقبت اور سلام پیش کیئے جبکہ دنیا کے صف ِ اوّل کے نوحہ خواں سیّد ندیم رضا سرور نے نوحہ خوانی کے فرائض انجام دیے۔ اس برسی کی مجلس میں اختتامی خطاب علاّمہ سیّد ضمیراختر نقوی نے کیا اِسی طرح ایک اور ایصالِ ثواب کی مجلس ڈیفنس میں ہوئی اُس مجلس سے بھی علاّمہ صاحب نے خطاب کیا تو گھر کی مجالس سے علاّمہ صاحب اب بھی خطاب فرمارہے ہیں۔ علاّمہ صاحب کی قائم کردہ تفسیرقرآن کی اُنتیسویں سالانہ مجالس حسب ِ سابقہ اِمسال نہایت عقیدت واحترام کے ساتھ برپا کی گئیں ان تفاسیر کی مجالس سے خطاب کرنے کے لیئے علاّمہ صا حب نے ملتان سے جناب علاّمہ ناصر سبطین ہاشمی اور جناب علاّمہ محسن رضا صاحب کو، لاہور سے جناب علاّمہ سیّدعاقل رضا زیدی کو ،کراچی سے علاّمہ سیّد محمد علی عابدی فرزند شہید علاّمہ سیّد عرفان حیدرعابدی،سید محمد علی رضوی ،علاّمہ سید سجاد شبیر رضوی، علامہ سیّد عمران مہدی نقوی کو مدعو کیا۔علّامہ ظلِّ ثقلین نے آخری مجلس میں علّامہ صاحب کی نیابت کے فرائض انجام دئیے اور خطاب فرمایا۔ قارئین محترم! آج سن ۲۰۱۰ء فروری کی ۱۴ تاریخ ہے۔ علّامہ صاحب پر قاتلانہ حملے پر ایک سال بیت گیا ، علّامہ صاحب ماشاء اللہ تریسٹھ یا چونسٹھ برس کے ہو گئے ، ان کی زندگی کے واقعات لکھنے کے لیے ایک دفتر درکار ہے ۔ بس جتنی میری بساط تھی وہ میں نے لکھ دیا۔ کچھ کتابوں میں پڑھا کچھ علّامہ صاحب کے دوستوں اور ساتھیوں سے سُنا اور کچھ علّامہ صاحب نے بیان کیا۔ آپ حضرات دُعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے علّامہ صاحب پر لکھنے کی مزید توفیق عطا فرمائے۔ آمین ! ززز

Comments